تعلیم مافیا کی اسکول : محکمہ تعلیم نے گھوٹالہ کا اعتراف کرلیا، وزیر تعلیم نے دیانتدارانہ اور مکمل تحقیقات کی ہدایت دی
بوگس ٹیچرس کے نام پر حاصل کئے گئے 19 کروڑ روپے سرکاری خزانے میں جمع کرائے گئے
جلگاؤں: 21 مارچ (بیباک نیوز اپڈیٹ) سیکنڈری ایجوکیشن محکمہ جلگاؤں کے پے یونٹ Pay Unit سے نکالے گئے 68 بوگس اساتذہ اور نان ٹیچنگ ملازمین کے بیک ڈیٹیڈ کی رقم، تنخواہوں کے بقایا جات (فرق) کا معاملہ سامنے آنے کے بعد انکوائری کی گئی اور انہیں خاطی پائے جانے پر بالآخر یہ رقم حکومت کو واپس کر دی گئی ہے۔ خیال رہے کہ جب یہ معاملہ سامنے آیا تب انکوائری کے بعد ہی ڈپٹی ڈائریکٹر ایجوکیشن کے دفتر نے سماعت کی اور قابل اعتراض (غیر قانونی اپروول) منظوریوں کو منسوخ کر دیا۔
بوگس ٹیچرس کے ناموں پر نکالے گئے 19 کروڑ روپے دوبارہ سرکاری خزانے میں جمع کرائے گئے۔ تاہم یہ معلوم کیے بغیر کیس کو ختم کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ اس کا ذمہ دار اور قصوروار کون ہے؟ ۔ دیویہ مراٹھی کے سوالوں کے جواب میں وزیر تعلیم دادا بھوسے نے اس معاملے کی فوری تحقیقات کا حکم دیا ہے۔ اب یہ نتیجہ اخذ کیا جا رہا ہے کہ محکمہ تعلیم کے ذمہ داران کے تعاون کے بغیر حکومت کو کروڑوں کا چونا لگانا ممکن نہیں۔
اسکول مینجمنٹ کے کل وقتی ملازمین جلگاؤں میں سیکنڈری ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ میں بروکرز(دلال) کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ ادارے کے کام کی وجہ سے یہ ملازمین دن بھر دفتر میں رہتے ہیں۔ دیویہ مراٹھی نے حال ہی میں ایسے دو ملازمین کی خبر شائع کی ہے جو چھٹیوں میں ہے یونٹ pay Unit میں آئے اور کام کرتے تھے۔
چند ٹیچر ایجنٹ گری کے طور پر کچھ ایسے لوگوں کے لیے ثالث کے طور پر کام کر رہے ہیں جو آفیسران سے ملاقات کے لیے آتے ہیں، ذاتی کام کرتے ہیں، اپنے اکاؤنٹس بیلنس کا انتظام کرتے ہیں۔محکمہ تعلیم کے ماہرین کے مطابق بل صرف اس لیے منظور نہیں کیے جا سکتے کہ تعلیمی اداروں نے انہیں تجویز کیا ہے۔انفرادی اپروول کی تجاویز تعلیمی ادارے کی سطح سے سیکنڈری تعلیمی حکام کو آتی ہیں۔ ڈپٹی ڈائریکٹر اور تنخواہ اور پراویڈنٹ فنڈ ٹیم کی منظوری کے بعد تنخواہ کا تعین تصدیق شدہ ہے. تب ہی ڈپٹی ڈائریکٹر کی منظوری سے تنخواہ، بقایا جات نکالے جاتے ہیں۔ تاہم محکمہ تعلیم نے اس حوالے سے کوئی تصدیق نہیں کی۔ لہٰذا یہ ایک اجتماعی سازش ہونے کا امکان ہے۔ اس کے لیے انتہائی دیانتدارانہ اور مکمل تحقیقات کی ضرورت ہے۔ بشکریہ پردیپ راجپوت |
0 تبصرے
bebaakweekly.blogspot.com