اردو میڈیم اسکولوں میں غیر قانونی سرگرمیوں کا انکشاف، وزیراعلیٰ دیویندر پھڑنویس نے تحقیقات کا حکم دیا
ٹیچرس کیساتھ دوہرا معیار، جنسی و ذہنی ہراسانی اور اساتذہ کی تنخواہ میں سے کٹوتی کی شکایت
بوگس ٹیچر بھرتی،سرکاری فنڈ کا بیجا استعمال، رشتہ داروں کو نوکری پر لگانے جیسے کئی سنگین معاملات میں اقلیتی کمیشن کے چیرمین اور وزیر اعلیٰ ایکشن موڈ میں
ممبئی: 8 مارچ (بیباک نیوز اپڈیٹ) مہاراشٹر میں اقلیتی درجہ کے اردو میڈیم اسکولوں میں بڑے پیمانے پر بے ضابطگیاں دیکھنے میں آئی ہیں۔ وزیر اعلی دیویندر پھڑنویس نے 400 سے زیادہ اسکولوں کے بارے میں شکایات موصول ہونے کے بعد فوری تحقیقات کا حکم دیا ہے۔ اقلیتی کمیشن کے چیئرمین پیارے خان نے ان اسکولوں میں ہونے والی بددیانتی کو بے نقاب کیا ہے اور کئی اسکولوں کے خلاف ایف آئی آر درج کی گئی ہے۔
جیسے ہی وزیر اعلی دیویندر پھڑنویس کو اس بارے میں مکمل معلومات ملی، انہوں نے فوری تحقیقات کا حکم دیا ہے۔ ریاست کے وزیر خزانہ آشیش جیسوال نے بھی اس معاملے پر توجہ مرکوز کی ہے۔
مہاراشٹر میں تقریباً 3500 اردو میڈیم اسکولوں کو اقلیتی درجہ ملا ہے۔ ان میں سے 400 سے زیادہ اسکولوں میں اقلیتی کمیشن میں سنگین بے ضابطگیوں کی شکایات موصول ہوئی ہیں۔ ان میں اسٹاف اور اساتذہ پر دباؤ ڈال کر لاکھوں روپے وصول کرنا، خواتین اساتذہ کا جنسی استحصال،اسکول انتظامیہ اپنے خاندان کے افراد کو بطور ٹیچر تقرر کرنا،بوگس طریقے سے ٹیچر بھرتی کرنا اور ایک اسکول کے احاطے میں دو اسکول چلانا شامل ہیں۔
پیارے خان نے الزام لگایا ہے کہ حکومت سے ملنے والی گرانٹ کا غلط استعمال کیا جا رہا ہے۔ اگرچہ کئی جگہوں پر طلبہ کی تعداد زیادہ دکھائی جاتی ہے لیکن حقیقت میں یہ پایا جاتا ہے کہ وہاں طلبہ نہیں ہیں۔ بعض مقامات پر اساتذہ کی تعداد معمول سے زیادہ ہے لیکن طلبہ کی حاضری بہت کم ہے۔ یہ بھی انکشاف ہوا ہے کہ ایک اسکول میں بطور استاد تعینات شخص دراصل کلینک چلاتا ہے اور کبھی اسکول نہیں جاتا۔ ان کا آڈیو کلپ سوشل میڈیا پر وائرل ہو چکا ہے۔
اقلیتی کمیشن کے چیئرمین نے جب آکولہ ضلع کے اردو اسکولوں کا معائنہ کیا تو چونکا دینے والی باتیں سامنے آئیں۔ایک اسکول کی خاتون ٹیچر نے اسکول کے ذمہ داران کے خلاف جنسی ہراسانی کی شکایت درج کرائی ہے۔اساتذہ کی تنخواہوں سے غیر قانونی کٹوتی، جعلی اساتذہ کی تقرری اور غبن جیسے واقعات بھی سامنے آئے ہیں۔ اقلیتی کمیشن نے واضح کیا ہے کہ اردو اسکولوں کے نام پر بڑے پیمانے پر بدعنوانی اور سرکاری گرانٹس کا غلط استعمال ہورہا ہے۔ ریاست بھر میں 400 سے زیادہ اسکولوں میں یہ بددیانتی دیکھی گئی ہے۔ پیار خان نے واضح کیا ہے کہ ان ذمہ داروں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔
آکولہ ضلع کے ایک اسکول کی ایک خاتون ٹیچر نے اسکول ڈائریکٹر پر سنگین الزامات لگائے ہیں۔ انہیں ذہنی اور جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور تنخواہ سے 50 فیصد جبری کٹوتی کی جاتی ہے۔ اگر ٹیچر مخالفت کرتے ہیں تو انکو مار پیٹ اور دھمکیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ فحش تبصرے، جنسی طور پر ہراساں کرنے اور اساتذہ کو ذہنی طور پر ہراساں کرنے کے واقعات بھی سامنے آئے ہیں۔
اس بات کی نشاندہی کی گئی ہے کہ کئی اسکولوں میں طلباء کیلئے کھیل کا میدان نہیں، بیت الخلاء نہیں، پینے کے پانی کی سہولت نہیں اور لڑکیوں کے لیے الگ سے بیت الخلا کی سہولت نہیں ہے۔کچھ جگہوں پر، پورے اسکول صرف 1000-1500 مربع فٹ جگہ میں چلائے جا رہے ہیں۔قواعد کے مطابق ایک کلومیٹر کے فاصلے پر دوسرا اسکول نہیں ہونا چاہیے لیکن ایک ہی عمارت میں دو دو اسکول چل رہے ہیں۔ان سب شکایت ملنے پر وزیر اعلیٰ دیویندر پھڑنویس نے تحقیقات اور کارروائی کا حکم دیا ہے ۔
0 تبصرے
bebaakweekly.blogspot.com