اسکول انتظامیہ ٹیچر کو بطور تنخواہ ایک کروڑ پانچ لاکھ روپے ادا کرے، ہائی کورٹ کا حکم


اسکول انتظامیہ ٹیچر کو بطور تنخواہ ایک کروڑ پانچ لاکھ روپے ادا کرے، ہائی کورٹ کا حکم 



اسکول کی جائیداد فروخت کر  متعلقہ ٹیچر کو رقم ادا کی جائے، تعلیمی ادارے کی انتظامیہ کو کورٹ کا جھٹکا 



ٹیچر کی تنخواہ ادا نہ کرنے پر متاثرہ ٹیچر نے ہائی کورٹ سے انصاف کی گہار لگائی، فیصلہ ٹیچر کے حق میں 




ممبئی : 14 اگست (بیباک نیوز اپڈیٹ)تعلیمی ادارے اساتذہ و معلمات کا کس طرح استحصال کرتے ہیں اس طرح کی خبریں پورے سماج و معاشرے میں زبان زد عام ہیں ۔پر نئے دن اسکولوں کی جانب سے ہورہے استحصال کی خبریں منظر عام پر آتی ہیں ۔کہیں اساتذہ کو ذہنی طور پر پریشان کیا جاتا ہے تو کہیں اسکول انتظامیہ اپنے رشتہ داروں کو اپوائینٹ کرلیتی ہیں ۔مستحقین ٹیچرس کے ساتھ دوہرا سلوک کیا جاتا ہے ۔اس ناانصافی کیخلاف کئی اساتذہ نے کورٹ سے انصاف حاصل کیا ہے گزشتہ ماہ قبل ہی جلگاؤں کے ایک تعلیمی ادارے کے تعلق سے اس طرح کا فیصلہ کورٹ نے سنایا تھا اور اسکول انتظامیہ کو پابند بنایا تھا کہ ٹیچرس کی تنخواہ اسکول انتظامیہ ادا کرے، اسکولوں کی من مانی و ناانصافی کسی سے چھپی نہیں ہیں لیکن ہمت و  حوصلہ اور اپنے حقوق کیلئے لڑنے والوں کو کامیابی ملتی ہیں کے مصداق ایک خاتون معلمہ نے اپنے ساتھ ہورہی ناانصافی کیخلاف ہائی کورٹ میں گہار لگائی ۔ہائی کورٹ نے اسکول انتظامیہ کیخلاف ٹیچر کے حق میں فیصلہ سنایا ۔

اس ضمن میں ہائی کورٹ نے تعلیمی ادارے کی انتظامیہ کو بڑا جھٹکا دیا ہے اسکول انتظامیہ نے سالوں سے پڑھا رہی خاتون ٹیچر کی تنخواہ تقریباً ایک کروڑ روپے ادا کرنے کا فیصلہ سنایا ہے ۔  عدالت نے ڈپٹی ڈائریکٹر ایجوکیشن کو انتظامیہ کی جائیداد فروخت کرنے اور ٹیچر کی بقایا تنخواہ ادا کرنے کا حکم دے دیا۔


 تفصیلات کے مطابق تھانے ضلع کی نو نرمان تعلیم منڈل سنستھا نے ٹیچر سنیتا کولہے کی تنخواہ کے لیے ایک کروڑ پانچ لاکھ 59 ہزار 637 روپے ادا کرنے کا حکم دیا ہے۔ ڈپٹی ڈائریکٹر ایجوکیشن کو اس رقم کی وصولی کے لیے ادارے کے ٹرسٹیز کی جائیداد فروخت کرنے کا فیصلہ کیا۔معزز جج نتن جمعدار اور  ملند ساٹھے کی بنچ نے یہ حکم دیا ہے۔  اسکول انتظامیہ کی جائیداد فروخت  کر رقم عدالت میں جمع کروائیں۔  عدالت نے حکم میں یہ بھی کہا کہ کولہے عدالت میں جمع کی گئی رقم واپس لے۔

 
 یہ مقدمہ 2009 سے زیر التوا ہے۔ معاملہ سپریم کورٹ میں چلا گیا۔ تاہم تنظیم نے کولہے کو تنخواہ ادا نہیں کی ۔  اس حوالے سے توہین عدالت کی درخواست دائر کی گئی۔  عدالت کے حکم کے بعد بھی تنظیم نے کولہے کی واجب الادا تنخواہ ادا نہیں کی۔  ڈپٹی ڈائرکٹر آف ایجوکیشن کے ٹرسٹیوں کی جائیداد فروخت کرنے کے فیصلے کے باوجود اسکول انتظامیہ کولہے کو تنخواہ دینے پر راضی نہیں ہوا۔  اس لیے عدالت نے حکم میں کہا کہ ڈپٹی ڈائریکٹر ٹرسٹیز کی جائیداد فروخت کرنے کے بعد ہی ایک لیڈیز ٹیچر کو رقم ادا کریں، محکمہ ریونیو اور تحصیلدار اس پراپرٹی کو بیچنے میں ڈپٹی ڈائریکٹر ایجوکیشن کی مدد کریں۔اس طرح کا حکم بھی عدالت نے دیا ہے ۔


 
 عدالت نے ادارے کا سکول بند کرنے کی تجویز دی تھی۔  لیکن اسکول بند ہونے کی صورت میں طلبہ اور اساتذہ کو نقصان ہوگا۔ اس لیے اسکول بند نہیں کیا جا سکتا۔  اس طرح کی دلیل سرکاری وکیل وکاس مالی نے کی اور کہا کہ ٹرسٹیوں کی جائیداد بیچ کر کولہے کو واجب الادا تنخواہ کی رقم ادا کی جائے گی۔

 

 کولہے نے اس ادارے کے اسکول میں بطور استاد شمولیت اختیار کی تھی۔  ادارے نے ان کے عہدے کو تسلیم کرنے کی تجویز محکمہ تعلیم کو نہیں بھیجی ہے۔  انہیں تنخواہ بھی نہیں دی گئی۔بعد ازاں اسے نوکری سے بھی نکال دیا گیا۔ کولہے کی تنخواہوں کی واپسی کے لیے عدالتی جنگ جاری رہی اور بالآخر کولہے نامی لیڈیز ٹیچر نے اس لڑائی میں کامیابی حاصل کی ہے۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے