قضیہ فلسطین اور حکومت سعودی عرب: موجودہ حالات کے تناظر میں
از قلم :ڈاکٹر ارشد فہیم مدنی
(جامعہ امام ابن تیمیہ،مشرقی چمپارن، بہار)
بسم اللہ الرحمن الرحیم
آج قضیہ فلسطین کو لے کر بعض ناعاقبت اندیش اور تاریخ سے بے خبر لوگ حکومت سعودی عرب کو جس طرح مطعون کررہے ہیں، وہ انتہائی افسوس ناک اورقابل مذمت ہے، حقیقت یہ ہے کہ فلسطین کے قضیہ کو جتنی توجہ ، مادی واخلاقی تعاون حکومت سعودی عرب نے دیا ہے، دنیا کا کوئی بھی ملک اس بارے میں اس کی برابری نہیں کرسکتا ہے، سعودی عرب کی تشکیل کے بعد 1935ءمیں منعقد لندن گول میز کا نفرنس کے اندر سعودی عرب کے بانی اور پہلے حکمران شاہ عبدالعزیز رحمہ اللہ نے فلسطینی عوام کی کھل کر حمایت کی، اور اسرائیلی حکومت کے قیام پر سخت اعتراض جتایا، 1943ءمیں سعودی عرب نے ”القدس“ شہر میں اپنا قونصل خانہ قائم کیا، تاکہ اس کے ذریعہ فلسطینی مسلمانوں کے حالات پر نظر رکھی جائے۔ اور آسانی کے ساتھ ان کی مدد کی جائے۔ 1945ءمیں شاہ عبدالعزیزرحمہ اللہ نے اس دور کے امریکی صدر” روجرفلٹ “ تاریخی خط لکھا جس میں تفصیل کے ساتھ قضیہ فلسطین کی وضاحت کی، اس اہم اور تاریخی خط کا اثر یہ ہوا کہ امریکی حکومت نے اپنے موقف پر نظر ثانی کیا اور یہ وعدہ کیا کہ وہ اسرائیلی حکومت کو منظوری نہیں دے گی، قضیہ فلسطین کے دفاع کی تاریخ میں شاہ عبدالعزیز رحمہ اللہ کے اس مکتوب کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔ آپ کی وفات کے بعد آپ کے تمام صاحبزادوں نے اپنے اپنے دور حکومت میں اپنے والد کے اس تاریخی اور عادلانہ موقف کو اپنایا اور آج بھی خادم الحرمین الشریفین سلمان بن عبدالعزیز حفظہ اللہ کی حکومت اس پر قائم ہے۔
سیاسی ، معنوی اور اخلاقی تعاون کے ساتھ سعودی عرب نے فلسطینی مسلمانوں کا جس قدر مادی تعاون کیا ہے اور کررہی ہے ، اس کی بھی ایک لمبی تاریخ ہے ۔ 1967ءکی عرب اسرائیل جنگ کے بعد فلسطینی مسلمانوں کو سب سے زیادہ مادی تعاون کی ضرورت تھی، اس وقت جون 1967ءمیں سعودی عرب نے ملکی پیمانے پر تعاون کی تحریک چلائی اوراس دور میں (16)سولہ ملین ریال جمع کرکے فلسطین بھیجا۔ 1968ءمیں ”تعاون برائے فلسطین“ کمیٹی کے صدر کی حیثیت سے موجودہ شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے دو بڑے اعلان کیے۔ پہلا اعلان یہ تھا کہ تمام برسرِ روزگار سعودی شہری اپنی ماہانہ تنخواہوں کا ایک فیصد جمع کریں، تاکہ اس کے ذریعہ فلسطینی شہداءاورفلسطینی مجاہدین کے خانوادوں کی دیکھ بھال ہوسکے۔ اور دوسرا اعلان یہ تھا کہ ایک ”دفترِ شرف“ بنایا یا جائے، جس میںتمام سعودی شہری بشمول تاجران ،کمپنیاں اور ادارے پابندی کے ساتھ اپنے چندے درج کرائیں، اور ان اعلانات کے نتیجہ میں 1988ءمیں فلسطینی مسلمانوں کے لیے اس چندے کی رقم 160ملین ریال سے زیادہ ہوگئی ، جسے فلسطین بھیجا گیا۔
1989ئمیں موجودخادم الحرمین اور اس وقت کے ریاض کے گورنر شاہ سلمان بن عبدالعزیز حفظہ اللہ نے ریاض میں فلسطینی سفارت خانے کا شاندار افتتاح کیا، اور پہلی بار فلسطینی جھنڈے کو سفارت خانہ پر لہرایا، اس تاریخی کارنامے سے خوش ہوکر اس وقت کے فلسطینی صدر یاسر عرفات نے خادم الحرمین شاہ سلمان بن عبدالعزیز کو ”نشان قدس“ پہناکر آپ کی تکریم کی اور فلسطینی عوام کے تعاون کے لیے آپ کا شکریہ ادا کیا، سعودی عرب کے تمام حکمرانوں با لخصوص خادم الحرمین شاہ سلمان بن عبدالعزیز حفظہ اللہ کا فلسطینی قضیہ میں ہر طرح کا تعاون ماضی میں رہا اور مسلسل جاری ہے۔
1917ءمیں منعقد ”عرب چوٹی کانفرنس“ میںخادم الحرمین اپنے اس قدیم موقف کو دہرایا اور یہ تاکید کی کہ ”ہمارے اس خطہ میں اس وقت بڑے بڑے حادثات اور واقعات پیش آرہے ہیں، ان میں ہماری مشغولیت کے باوجود ہم دنیا کو یہ بتانا چاہتے ہیں کہ فلسطین کا قضیہ امت اسلامیہ کا سب سے اہم اور مرکزی قضیہ ہے، اور ہم اس سے دستبردار نہیں ہوئے ہیں“۔
اسی طرح 2019ءمیں مکہ مکرمہ کے اندر منعقد ”عرب چوٹی کانفرنس“ کے اندر گفتگو کرتے ہوئے آپ نے زور دے کر یہ بات کہی کہ ”قضیہ فلسطین آج بھی ہمارا سب سے اہم قضیہ ہے، اور ہم اس وقت تک اس قضیہ کو اہمیت دیتے رہیں گے جب تک کہ فلسطینیوں کو ان کے غصب کیے ہوئے حقوق نہیں لوٹا ئے جاتے، ان کی ایک مستقل حکومت قائم نہیں ہوجاتی، جس کی راجدھانی مشرقی قدس ہوگی۔
سابق امریکی صدر ٹرمپ نے جب یہ اعلان کیا کہ وہ ”القدس“ کو اسرائیلی حکومت کی راجدھانی کی حیثیت سے منظوری دیتا ہے تو سب سے پہلے سعودی عرب نے اپنا رد عمل ظاہر کرتے ہوئے یہ بیان دیا تھا کہ ”یہ انتہائی غیر ذمہ دارانہ اور ظالمانہ قدم ہے، ہم اس کی مذمت کرتے ہیں اور یہ آگاہ کرتے ہیں کہ مستقبل میں اس کے خطرناک نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔فلسطین کے موجودہ حالات پر خادم الحرمین نے اسرائیلی حکومت کے مظالم اور غزہ پر اس کی بربریت کی شدید مذمت کرتے ہوئے اپنے اس موقف کا اعادہ کیا ہے کہ سعودی عرب فلسطین کے ساتھ مضبوطی کے ساتھ کھڑ اہے، اور اس کے حقوق کی بازیابی تک ہر ممکن تعاون جاری رکھے گا، نیز غاصب اسرائیلی حکومت فلسطینی مسلمانوں کے ساتھ جو کچھ کرر ہی ہے وہ واضح طور پر بین الاقوامی قانون کی مخالفت اور انسانی حقوق کی پامالی ہے“۔
دو دن قبل خادم الحرمین شاہ سلمان بن عبدالعزیز حفظہ اللہ نے اپنے شہریوں سے فلسطینی مسلمانوں کے تعاون کے لیے مالی امداد جمع کرنے کی ایک تحریک شروع کی ہے، اس تحریک میں سعودی شہریوں کے تعاون کی مقدار اور ان کی دلچسپی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ صر ف دو دنوں میں امداد کی یہ رقم 295ملین سعودی ریال تک پہنچ گئی تھی۔ اور یہ سلسلہ بڑی تیزی کے ساتھ جاری ہے۔ ان تمام کو ششوں اور محنتوں کے باوجود کچھ نادان دوستوں اور سعودی عرب کے حاسدین کا سوشل میڈیا پر واویلا مچانا،ان کی لاعلمی اور ان کے دینی واخلاقی پستی وزوال کو ظاہر کرتا ہے۔ ایسے موقع پر صرف سعودی عرب کو نشانہ بنانا اور دنیا کے تمام اسلامی ممالک کے تعاون اور ان کے کردار کو نظر انداز کردینا عدل وانصاف کے منافی ہے۔
0 تبصرے
bebaakweekly.blogspot.com