گاؤں فروخت کرنا ہے ، ناسک ضلع کے ایک گاؤں نے اپنے ہی گاؤں کو فروخت کرنے کی قرارداد منظور کی، انتظامیہ و لیڈران میں تذبذب
ناسک : 8 مارچ (بیباک نیوز اپڈیٹ)گزشتہ 18 سال قبل 2005 میں وردھا ضلع کے ڈورلی کے گاؤں والوں نے گاؤں کے باہر ایک بورڈ لگا کر ایک انوکھا احتجاج کیا کہ 'گاؤں فروخت کے لیے دستیاب ہے' کیونکہ انہیں زراعت سے کوئی آمدنی نہیں مل رہی تھی۔ اس تحریک نے پورے ملک کی توجہ اپنی جانب مبذول کرائی تھی۔ اتنے سالوں کے بعد بھی مہاراشٹر کے حالات بدلتے نظر نہیں آتے۔ کیونکہ اب ناسک ضلع کے پھولےمالواڑی کے گاؤں والوں نے بھی یہی قدم اٹھایا ہے۔
یہ گاؤں دیولا تعلقہ میں ہے۔ رقبہ تقریباً 534 ہیکٹر ہے اور پورا گاؤں زراعت پر گزارا کرتا ہے۔ لیکن زرعی پیداوار کی قیمت نہ ہونے کی وجہ سے بچوں کی تعلیم، صحت اور بنیادی ضروریات کو پورا کرنا مشکل ہو گیا ہے۔ اس گاؤں کا کسان مالی بحران کا شکار ہے۔ پیاز، گندم، چنا، سبزیاں اور کچھ دوسری نقدی فصلیں یہاں کے کسان اگاتے ہیں۔ لیکن کسی بھی فصل کی مناسب قیمت نہیں ملتی۔
حکومتیں کسانوں سے زیادہ صارفین کے مفاد کو اہمیت دیتی ہیں۔ چنانچہ گاؤں کے لیے ایک سخت فیصلہ لینے کا وقت آگیا۔ گاؤں والوں کا کہنا ہے کہ اگر گاؤں بیچ دیا جائے تو اس سے آنے والی رقم سے وہ اپنی آنے والی زندگی گزار سکتے ہیں۔ خاص بات یہ ہے کہ گاؤں کو بیچنے کا فیصلہ تمام گاؤں والوں نے مل کر لیا ہے۔ سرپنچ کے اجلاس میں منظور ہونے والی قرارداد کی کاپی حکومت کو بھی بھیج دی گئی ہے۔ جس کی وجہ سے مقامی حکام، ضلعی انتظامیہ اور عوامی نمائندے شدید تذبذب کا شکار ہیں۔ کسانوں میں پروین باگل، امول باگل، راکیش سونوانے، اویناش باگل اور اکشے شیوالے نے اس کے لیے پہل کی ہے۔
پھولےمال واڑی کے گاؤں والوں نے حالات سے تنگ آکر ریاست کرناٹک اور گجرات میں ہجرت کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس سلسلے میں گاؤں والوں نے بھی اکٹھے ہو کر ایک قرارداد پاس کی تھی اور قرارداد کی کاپی حکومت کو بھیجی تھی۔ پھولےمالواڑی کے عوام کے فیصلے کی وجہ سے ناسک ضلع کے عوامی نمائندوں کو کافی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ یہ بدقسمتی سمجھی جاتی ہے کہ گاؤں کو ایسا فیصلہ لینا پڑتا ہے
0 تبصرے
bebaakweekly.blogspot.com