گھریلو تشدد کے الزام میں بیٹا اور ماں بری ، ساس کا بہو کو طعنہ دینا ظلم نہیں : ہائی کورٹ
نئی دہلی : 9 اگست (بیباک نیوز اپڈیٹ) جہیز کی مانگ کو لیکر دائر ایک کیس میں دہلی کی ایک عدالت نے ایک شخص سے اپنی بیوی کو مبینہ طور پر تشدد کا نشانہ بنانے اور اسے خودکشی پر اکسانے کے الزام سے اسکے شوہر اور اس کے والدین کو بری کر دیا ہے۔ یہ فیصلہ سناتے ہوئے عدالت نے کہا کہ خاندان کے رسم رواج میں طعنے دینے کی عام حرکتیں ظلم نہیں بن جاتیں۔ دراصل ملزمان پر متاثرہ کو خودکشی کے لیے اکسانے کا الزام لگا تھا۔
عدالت نے کہا کہ یہ ثابت نہیں کیا جا سکتا کہ متوفی کو ظلم یا ہراسانی کا نشانہ بنایا گیا۔اس بات کا کوئی ثبوت نہیں تھا کہ ملزم نے متاثرہ کو خودکشی کے لیے اکسایا ہو۔ عدالت نے کہا کہ مقتول کی والدہ کی گواہی سے یہ ظاہر نہیں ہوتا کہ متوفی کو طعنے دینے کے علاوہ کوئی ظلم کیا گیا تھا۔ عدالت نے کہا کہ خاندان کے تانے بانے میں طعنہ دینے کی عام حرکتیں ظلم نہیں ہیں۔
ظلم کا مطلب آئی پی سی کی دفعہ 498-A کے تحت ہراساں کرنا ہے۔ جس کے مقصد سے عورت یا اس کے والدین کو جائیداد کی کسی بھی غیر قانونی مانگ کو پورا کرنے پر مجبور کیا جائے۔ آپ کو بتاتے چلیں کہ ایک خاتون نے شادی کے 15 ماہ کے اندر ہی پھانسی لگاکر اپنی زندگی کا خاتمہ کر لیا تھا۔ متوفی کے والدین نے الزام لگایا تھا کہ شوہر اور سسرال والے ان کی بیٹی کو جہیز کے لیے ہراساں کرتے تھے۔ شوہر پر خودکشی کے لیے اکسانے کا بھی الزام تھا۔
ایڈیشنل سیشن جج نیرج گوڑ کے سامنے جرم ثابت کرنے میں شکایت کنندہ ناکام رہا کہ متوفی کو اس کی موت سے کچھ دیر پہلے ظلم یا ہراساں کیا گیا تھا یا جہیز کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ جج نے 27 اگست کے ایک حکم میں کہا کہ ریکارڈ پر موجود شواہد سے یہ پتہ نہیں چلتا ہے کہ متوفی کو آئی پی سی کی دفعہ 498 اے کے تحت ظلم کا نشانہ بنایا گیا تھا۔
0 تبصرے
bebaakweekly.blogspot.com