اپنے زرین ماضی سے مربوط رہ کر تابناک مستقبل کی طرف قدم بڑھائیں : مولانا محمد عمرین ،معہد ملت میں مولانا محمد ادریس عقیل ملی کے ہاتھوں پرچم کشائی



اپنے زرین ماضی سے مربوط رہ کر تابناک مستقبل کی طرف قدم بڑھائیں : مولانا محمد عمرین محفوظ رحمانی

معہد ملت میں مولانا محمد ادریس عقیل ملی کے ہاتھوں پرچم کشائی



 مالیگاؤں :15 اگست (پریس ریلیز) آزادی اللہ تعالی کی بڑی نعمت ہے، الحمد للہ ہم اس ملک میں آزاد ہیں، یہ آزادی علمائے کرام اور ہمارے اسلاف کی بے لوث قربانیوں کا نتیجہ ہے، طلبہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ جنگ آزادی کی تاریخ کو ضرور پڑھیں،اور اس بات کو ہمیشہ یادر رکھیں کہ جو قوم اپنے ماضی سے کٹ جاتی ہے اس کا مستقبل تاریک ہوتا ہے، ان خیالات کا اظہار حضرت مولانا محمد عمرین محفوظ رحمانی صاحب نے معہد ملت کے وسیع میدان میں پرچم کشائی کے سلسلے میں منعقد مجلس میں کیا، ۱۵ اگست کوصبح ساڑھے سات بجے منعقد اس مجلس کا آغاز مولانا محمد ادریس عقیل ملی قاسمی صاحب (شیخ الحدیث معہد ملت) کے ذریعے پرچم کشائی سے ہوا، پرچم کشائی کے بعد مولوی ابرار ملی نے قرآن پاک کی تلاوت کی۔

 عربی پنجم کے طالب علم محمد طالب نے اپنی پر سوز آواز میں نعت پاک کا نذرانہ پیش کیا، مولوی ابرار (متعلم شعبہ افتاء وقضاء) نے ملک کی شان میں ترانہ پیش کیا، بعد ازیں تقاریر کا سلسلہ شروع ہوا، طلبہ کی طرف سے مولوی عبدالرحیم ملی (متعلم شعبہ افتاء وقضاء) نے بہترین ترجمانی کی، موصوف نے جنگ آزادی میں مسلمانوں کے کردار پر چشم کشا تقریر کی، اور بتایا کہ یہ جو کہا جاتا ہے کہ جنگ آزادی ۱۸۵۷ء سے شروع ہوئی تھی، یہ سفید جھوٹ ہے، صحیح یہ ہے کہ اس کا باضابطہ آغاز ۱۷۵۷ء سے ہی ہوگیا تھا، نواب سراج الدولہ، شیر میسور حضرت ٹیپوسلطان، حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی اور سید احمد شہید رحمہم اللہ اور ان کے رفقاء نے اپنے اپنے وقت میں ملک کی آزادی کے لیے خوب کوششیں کی،اور اس ملک سے انگریزوں کے تسلط ختم کرنے میں ایڑی چوٹی کا زور صرف کیا،انہوں نے بتایا کہ ۱۸۶۳ء میں دار العلوم دیوبند کی بنیاد رکھی گئی، جس کی کوکھ سے وہ جوانمرد پیدا ہوئے جنہوں نے انگریزوں کا اس ملک میں جینا دشوار کردیا، شیخ الہند کی ریشمی رومال تحریک ان کے لیے دردِ سر بن گئی، حضرت مدنی علیہ الرحمہ نے فتوی دیا کہ انگریزوں کی نوکری حرام ہے۔

ان کے بعد مولانا مفتی حامد ظفر رحمانی صاحب (نائب صدر المدرسین معہد ملت) نے اپنے جامع خطاب میں بتایا کہ یہ بات بہت کم لوگوں کو معلوم ہے کہ اورنگ زیب عالمگیررحمۃ اللہ علیہ نے اپنے دور حکومت میں انگریزوںکی ناپاک سازشوں کو بھانپ کر انہیں نکال باہر کیا تھا، لیکن بعد میں وہ دوبارہ تجارت کی غرض سے آگئے اور دھیرے دھیرے منصب اقتدار پر قابض ہوگئے، آپ نے جنگ آزادی کی مفصل تاریخ بیان کرتے ہوئے بتایا کہ ۱۸۰۳ء میں شاہ عبدالعزیز نے فتوی دیا کہ ہندوستان اب دار الحرب ہوگیا ہے، انگریزوں کے خلاف لڑنا اب مسلمانوں کا دینی حق ہے، چنانچہ ا س فتوی کے صادر ہونے کے ساتھ ہی مدارس اور خانقاہوں سے علمائے کرام اور صوفیائے عظام نکل کھڑے ہوئے اور وطن کی آزادی میں تن من دھن کی بازی لگادی، دار العلوم دیوبند کے فرزندان بڑی تعداد میںسر سے کفن باندھ کر نکلے،۱۹۱۹ء کے بعد مختلف تحریکیں چلائی گئیں، جن میں تحریک ریشمی رومال، تحریک ترک موالات، ترک عدم تعاون وغیرہ خاص طور پر قابل ذکر ہیں، ان سب تحریکات کو چلانے والے علماءہی تھے، مولانا حسرت موہانی وہ مرد حق ہیں جنہوں نے ”انقلاب زندہ باد“ کا نعرہ لگایا، جواس وقت ملک کے ہر باشندے کی زبان پر جاری تھا۔


طلبہ اپنی تاریخ سے تغافل نہ برتیں، آخر میں معہد ملت کے مہتمم حضرت مولانا محمد عمرین محفوظ رحمانی صاحب نے اپنے مختصر خطاب میں بتایا کہ اپنی تاریخ سے آگاہ ہونا ہم سب کی بنیادی ذمہ داری ہے، ماضی سے کٹ کر مستقبل کی تعمیر ریت پر عمارت ثابت ہوتی ہے، ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے زرین ماضی سے مربوط رہ کر تابناک مستقبل کی طرف قدم بڑھائیں، آزادی اللہ کی بڑی نعمت ہے، اللہ کا شکر ہے کہ ہم اس ملک میں آزاد ہیں، مدارس نے آزادی کی تحریک میں غیر معمولی کارنامہ انجام دیا، ہمارے بزرگوں نے ایک آزاد، اور پر امن ملک کا خواب دیکھا تھا، ۷۵ سال ہوگئے مگر اب تک وہ خواب شرمندہٴ تعبیر نہیں ہوا، اب ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اس خواب کو بہتر تعبیر سے آشنا کریں، نظامت کے فرائض حضرت مولانا مفتی محمد حسنین محفوظ نعمانی نے انجام دئیے،  مولانا سعید احمد ملی صاحب (صدر المدرسین معہد ملت) کی دعا پر تقریب کا بحسن وخوبی اختتام ہوا۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے