کتاب : ریگِ ایّام
مترجم : انصاری عثمان غنی اسکس
تبصرہ : فرحان دل
ریگِ ایّام
اردو ادب میں ایک اضافے کی ضامن
مورخہ دو جنوری سن دوہزار پچیس شام چار بجے ایک دوست کی دوکان پر بیٹھ کر "ریگِ ایام" کا مطالعہ شروع کیا، یہ سوچ کر کہ جب تک تنہائی میسر رہے گی پڑھوں گا پھر کسی دوست کے آجانے پر کسی اور وقت کے لیے اٹھا رکھوں گا مگر پھر مجھے یاد نہیں رہا کہ کب کون سا دوست آیا اور کتنی دیر بیٹھ کر چلا گیا ۔ سرسری استقبال اور سلام کا جواب دے کر میں غرقِ مطالعہ رہا اور تقریباً آٹھ بجے جب ہم سب دوستوں کو ایک پارٹی میں جانا تھا تب مجبوراً ایک سو اسی صفحات پڑھ کر کتاب رکھنی پڑی ۔
پارٹی میں بھی میں نے قصداً اسی کتاب کا ذکر جاری رکھا اور وہاں بھی سڈنی شیلڈن، اگاتھا کرسٹی ،مظہرالحق علوی ،ابنِ صفی، جیمس ہیڈلے چیز ہی موضوعِ بحث رہے ۔
پارٹی ختم ہونے کے بعد رات بارہ بجے اپنے کمرے میں پہنچا اور تین بجے میں نے تین سو انچاس صفحات کا یہ ناول ختم کرلیا ۔
آج بروز تین جنوری سہہ پہر چاربجے ایک دوست کو یہ کتاب بغرضِ مطالعہ دے کر یہ خیال آیا کہ اس کتاب پر اپنے خیالات کا اظہار بھی کردوں کیونکہ میں ابھی تک اس کہانی کے حصار سے نکل نہیں پایا ہوں ۔
اب جو کچھ بھی میں عرض کروں گا وہ محض میری یادداشت پر مبنی ہوگا اس لیے اگر کسی کردار مقام کا نام ذہن سے محو ہوجائے تو درگزر کی درخواست ہے۔
کتاب پاس میں ہوتی تو دیکھ دیکھ کر کرداروں کے نام لکھتا مگر میری طبیعت میں یہ چیز شروع سے شامل نہیں رہی ہے کہ بار بار کتاب دیکھی جائے اور اس پر بات کی جائے ۔
ویسے بھی اپنے تاثرات ہی رقم کرنا مقصد ہے اس لیے ایک سرسری ذکر کافی ہوگا ۔ میرا انگلش زبان سے کوئی بھی ربط نہیں ہے اس لیے میں ترجمے پر کوئی بات نہیں کرسکتا میں نے اس کہانی کو بطورِ کہانی ہی پڑھا ہے اور اسی پر بات کروں گا ۔
تو چلتے ہیں ریگِ ایّام کی طرف.....
"ریگِ ایّام" ایک انگلش ناول دی سینڈس آف ٹائم " the sands of time" کا ترجمہ ہے جس کے مصنف کا نام سڈنی شیلڈن ہے ۔ مترجم کا نام ہے عثمان غنی اسکس جو مالیگاؤں سے متعلق ہیں ۔ اس کتاب کا اجراء انتیس دسمبر دوہزار چوبیس رات دس بجے کو اسکس لائبریری مالیگاؤں میں میں ہوا ۔
سب سے پہلے مترجم کے اسلوب کی داد دینا چاہوں گا اور مبارکباد بھی ۔میر، غالب، اقبال کے ساتھ ساتھ فیض اور فراز کی شاعری کو گھول کر پینے والا شخص ظاہر ہے کہ کوئی بات سادہ اور عام سے پیرائے میں کیوں لکھے گا ۔اسرارالحق مجاز، کیفی اعظمی، علی سردار جعفری اور ساحر جیسے قلمکاروں کے ساتھ اپنی مطالعاتی شامیں اور راتیں گزارنے والے شخص کے زبان و بیان کا اندازہ اس کے چند جملوں ہی سے ہوجاتا ہے ۔ کہانی لکھنے یا ترجمہ کرنے میں جو چیز آپ کو سب سے منفرد اور ممتاز کرتی ہے وہ آپ کے الفاظ کا استعمال اور آپ کی جملہ بندی ہی تو ہے، آپ کا اسلوب ہی تو ہے ۔
کل ملا کر پوری کتاب میں ایک ہی اسلوب ملتا ہے جو مصنف کی شخصیت کا ایک پیکر ترتیب دیتا ہے ۔
کہیں بھی یہ محسوس نہیں ہوا کہ لکھنے والے کا اسلوب تبدیل ہوا ہو یا اس کی گرفت ڈھیلی پڑی ہو اور یہ مصنف کی اصل کامیابی ہے ۔ کسی شاعر یا ادیب کے اسلوب کا لبادہ بہت وقت تک قصداً اوڑھا نہیں جاسکتا اور کہیں نہ کہیں یہ بے ساختگی میں اتر ہی جاتا ہے ۔ مگر عثمان غنی اسکس کو آپ چاہے روبرو گفتگو میں دیکھ لیں یا ان کی تحریر میں پرکھ لیں یہ شخص وہی ہے جو آپ سے اس کتاب کے ذریعے مخاطِب ہے ۔
انیس سو چھہتر سے پہلا باب شروع ہوا اور یہی اس کہانی کا زمانۂ حال ہے ۔جیم میرو ایک باسک ہے اور اسپینی حکومت کا ایک باغی ہے جو اس کہانی کا مرکزی کردار کہا جاسکتا ہے ۔"فیسٹا ڈی سام فرمین" نامی تہوار جس کا نام مجھے اسی کتاب سے معلوم ہوا جو سات جولائی سے چودہ جولائی تک اسپین میں منایا جاتا ہے جس میں اسپین کی شاہراہوں پر بیلوں اور سانڈوں کو چھوڑ دیا جاتا ہے اور ان بپھرے ہوئے بیلوں کے آگے لوگوں کی بھیڑ ہوتی ہے جنہیں بیل اپنی سینگوں سے اکھیڑ اکھیڑ کر مارتے ہیں اور آگے بڑھتے جاتے ہیں ۔ ان بیلوں سے اپنے آپ کو بچا کر اس سڑک پر بہت دیر تک ٹکنے والوں کو ہیرو مانا جاتا ہے اور انہیں عزت و اکرام کی نظر سے دیکھا جاتا ہے ۔ ہم نے سوشل میڈیا پر اس کی کئی ویڈیوز دیکھی ہیں اور جس نے بھی اس کھیل کو دیکھا ہے وہ اس کہانی میں اس کھیل کی منظر نگاری کی داد دیے بغیر نہیں رہ سکے گا ۔ اس کھیل میں بیلوں اور سانڈوں کی بھگدڑ کے ذریعے اپنے قیدی ساتھیوں کو چھڑوانے کا جو منصوبہ کہانی کے ہیرو جیم نے ترتیب دیا وہ واقعی قابلِ تعریف ہے حالانکہ اس میں بے گناہ اور معصوم لوگوں کی جانیں گئیں جس سے قاری پر ایک منفی اثر تو چھوٹا مگر جیم میرو کے ایک جملے نے کہ " یہ تو ہم نے سوچا ہی نہیں تھا ۔ اگر مجھے ذرہ برابر بھی گمان ہوتا تو میں اس منصوبے پر عمل ہی نہیں کرتا" نے قاری کو سمجھا دیا کہ جیم ظالم نہیں ہے مگر بڑے بڑے مقاصد میں کچھ قربانیون پر افسوس کر کے آگے بڑھنا ہی عقلمندی ہوتی ہے کیونکہ ظالموں کے ہاتھوں ایسے ان گنت بے گناہ روز مارے جاتے ہیں ۔
چالیس سالوں تک جنرل فرانکو نے اسپین پر حکومت کے ساتھ ساتھ وہاں کے باسک عوام پر اپنا ظلم و ستم جاری رکھا مگر باسک عوام نے اس کی بالا دستی قبول نہیں کی اور اپنی شخصی آزادی کے لیے حکومت کے خلاف اپنا احتجاج جاری رکھا اسی پس منظر میں یہ کہانی لکھی گئی ہے ۔
اویلا میں موجود خانقاہ اور اس خانقاہ کے سخت اصول و ضوابط اور وہاں کی سرگرمیوں کا تفصیلی بیان ہمیں ایک مخصوص حصار میں لے لیتا ہے اور ہمیں ننوں کی اس زندگی سے متعارف کرواتا ہے جو وہ دنیا سے کٹ کر گزارتی ہیں ۔اسی خانقاہ سے ہمیں چار کردار ملتے ہیں جن کے ارد گرد اس کہانی کے تانے بانے مرتب ہیں ۔ سسٹر لوسیا ۔سسٹر ٹیریسا، سسٹر میگن اور سسٹر گریشیا ۔
کہانی کے ولن کے طور پر جنرل فرینکو کے بعد وزیراعظم بننے والا لیوبالڈو مارٹن پسِ پردہ اور کرنل ریمن اکوکا ظاہراً پیش کیے گئے ہیں ۔
کرنل اکوکا "اسپین کا جلاد" کے نام سے مشہور ہے ۔ جو جیم میرو کو کسی بھی صورت میں ختم کرنا چاہتا ہے اور کیتھولک چرچوں کا بھی سب سے بڑا دشمن اس بناء پر ہے کہ ان چرچوں نے خانہ جنگی کے دوران بے گناہ باسک پادریوں اور عوام کا ساتھ دیا تھا اور دے رہے تھے ۔
اب ہمارے سامنے کہانی صاف ہوگئی ہے کہ کرنل اکوکا اور جیم میرو آمنے سامنے ہیں ۔
چرچ سے نفرت کے نتیجے میں کرنل اکوکا اس خانقاہ پر حملہ کر دیتا ہے جس میں چالیس ننیں موجود ہیں اور اس کے سپاہی ان ننوں کی عصمت دری بھی کرتے ہیں ۔ اس حملے میں لوسیا، ٹیریسا، گریشیا اور میگن نامی چار ننیں اپنی جان اور عصمت بچا کر بھاگ نکلنے میں کامیاب ہوجاتی ہیں جو آگے چل کر کسی طرح جیم میلو سے ٹکرا جاتی ہیں اور انجانے میں اس کے سفر کے اگلے منصوبوں سے واقف ہوجاتی ہیں جس کے سبب جیم میلو نہ چاہتے ہوئے بھی اپنے ساتھیوں کا چار گروپ بنا کر ان ننوں کو ایک اور خانقاہ تک پہنچانے کی ذمہ داری لیتا ہے، تاکہ یہ ننیں کسی صورت کرنل اکوک کے ہاتھ نہ لگ جائیں اور وہ انہیں ٹارچر کر کے جیم کے اگلے منصوبوں سے واقف نہ ہوجائے ۔ اس طرح کہانی آگے بڑھتی ہے اور کرنل اکوکا اور جیم کے درمیان شکاری اور لومڑی کا کھیل ترتیب پاتا ہے بیچ بیچ میں چاروں ننوں، جیم میلو، کرنل اکوکا اور دیگر کرداروں کے ماضی پر مفصل روشنی ڈالی گئی ہے اور سب کی دلچسپ کہانیاں مل کر اس ناول کو بہت زیادہ دلچسپ بناتی ہیں ۔
سب کی کہانیاں اپنی اپنی جگہ بہت خاص ہیں اور کہانی کار نے میگن کے کردار کو بے حد دلچسپ بنا کر لازوال کردیا ہے ۔
جیسا کہ میں نے شروع میں عرض کیا کہ کہانی کار یا ترجمہ نگار کی اصل شناخت اس کا اسلوب اور اندازِ بیاں ہی ہوتا ہے اور عثمان غنی اسکس اس کسوٹی پر کامیاب اترے ہیں ۔ اس جگہ میں ایک بات کہنا چاہوں گا کہ ترجمہ اور ترجمانی میں بہت معمولی لیکن اہم فرق ہوتا ہے اور عام طور پر لوگ لفظی ترجمہ کرنے کو ہی ترجمہ نگاری سمجھ کر آگے بڑھ جاتے ہیں جس سے کہانی بے رنگ اور غیر متاثر کن ہوکر رہ جاتی ہے۔
ترجمہ کہانی کو جسم دیتا ہے مگر بہترین ترجمانی اس کہانی کو روح عطا کرتی ہے ۔ اور یہی کام عثمان غنی اسکس صاحب نے کیا ہے ۔
اس بات کا اندازہ ایک ہی جملے سے لگا لیجیے کہ
" یہ مت سمجھنا سسٹر کہ میں اپنا تقابل ان عظیم ہستیوں سے کررہا ہوں ۔ ان کے سامنے میری نہ کوئی اوقات ہے نہ بساط ۔ لیکن ان کے حالات و واقعات سے مجھے حوصلہ ملا ۔ اپنے ملک کے لیے، اپنی قوم کے لیے، اپنی زبان کے لیے میں جو کچھ کرسکتا تھا وہ کررہا ہوں کیونکہ میں سمجھتا ہوں کہ ظلمتِ شب کا شکوہ کرنے سے بہتر ہے کہ ہر شخص اپنے حصے کی شمع جلاتا جائے ۔
اب حالانکہ میں نے انگلش ناول نہیں پڑھا مگر مجھے یقین ہے کہ یہ آخری جملہ" ظلمتِ شب کا شکوہ کرنے سے بہتر ہے کہ ہرشخص اپنے حصے کی شمع جلاتا جائے" اس انگلش ناول میں کہیں بھی نہیں ہوگا ۔ یہ کتاب ایسے بامعنی اور پُرلطف جملوں سے بھری پڑی ہے جو آپ کو جھومنے پر مجبور کردیں گے اور آپ مترجم کے مطالعے اور ادبی ذوق کی داد دیے بغیر آگے نہیں بڑھ سکیں گے ۔ ایسے سینکڑوں مقام آئیں گے جہاں مترجم نے لفظی ترجمے کی بجائے کرداروں کے جذبات اور احساسات کی ترجمانی کی ہے اور یہی ان کا اصل کام ہے، یہی ان کی شناخت ہے ۔ غثمان غنی اسکس صاحب نے کہانی کے کسی بھی حصے میں کہانی کی اصل روح کو مرنے نہیں دیا ہے۔
بات کو اپنے پیرائے میں کہنے کا جو ہنر عثمان غنی اسکس صاحب کے پاس ہے اس بناء پر میرا ان کے لیے مخلصانہ مشورہ ہے کہ آپ تخلیق کریں کیونکہ آپ ویسے بھی اپنے زبان و بیان پر قدرت رکھنے کی صلاحیت سے ایک کہانی کے معیار کو بہت اونچا کردیتے ہیں ۔
یہاں یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ انگلش ناول کا ترجمہ تو آپ نے اردو میں کردیا ہے مگر اگر اس اردو ترجمے کا دوبارہ انگلش ترجمہ کیا جائے تو ایک ایسی معیاری کہانی دنیا کے سامنے آئے گی کہ انگلش کا ادبی طبقہ بھی انگشت بدنداں رہ جائے گا ۔
ایک خوبصورت عورت کو اس کے حسن کی مناسبت سے اگر بہترین آرائشی لوازمات اور زیورات سے آراستہ کردیا جائے تو ظاہر ہے کہ وہ ان کے بغیر اب اتنی خوبصورت نظر نہیں آئے گی ۔
اس لیے مجھے امید ہے کہ اتنے خوبصورت اسلوب اور پیرائے کے حامل شخص کو اپنی ذہنی اپج کی بناء پر اپنا خود کا ناول تخلیق کرنا چاہیے جو ان شاء اللہ بے نظیر ہوگا ۔
یہاں ایک بات کا اور بھی ذکر کرتا چلوں کہ اس کتاب کے کل چوالیس باب ہیں اور آخری یعنی پینتالیسواں باب عثمان غنی اسکس صاحب نے لکھا ہے ۔ اور یقین مانیے اس بات کا علم ہونے کے باوجود آپ خود اس بات کا اعتراف کریں گے کہ کہانی اس پینتالیسویں باب ہی کے باعث مکمل ہوئی ہے ۔
اور یہ پینتالیسواں باب ہی عثمان غنی اسکس صاحب کی تخلیقی صلاحیت کا بہترین مظہر ہے۔
ایک اور بات یہ ہے کہ عثمان غنی اسکس صاحب کی اس صلاحیت اور اس ادبی کارنامے پر صرف انہیں افراد کو حیرت ہوسکتی ہے جو ان سے واقف نہیں ہیں ورنہ جو لوگ موصوف سے قریب ہیں وہ ان کی ہمہ گیر شخصیت سے بخوبی واقف ہیں کہ موصوف کا ادبی مقام کیا ہے ۔
اپنی بات کو یہیں سمیٹتے ہوئے آخر میں ایک بار پھر عثمان غنی اسکس صاحب کو ڈھیروں مبارکباد اور آپ تمام قارئین سے درخواست کروں گا کہ اگر آپ واقعی اچھی کہانیوں کے شوقین ہیں اور آپ اچھے ادب کا ذوق رکھتے ہیں تو آپ کو ریگِ ایّام ضرور بہ ضرور پڑھنی چاہیے، آپ کو ایک خوشگوار حیرت ہوگی کہ شہر مالیگاؤں میں ایک ایسا قلمکار موجود ہے جو ابھی تک آپ کی نظروں سے چھپا ہوا تھا ۔
🖋️ فرحان دِل ۔ مالیگاؤں ۔
📞 9226169933
0 تبصرے
bebaakweekly.blogspot.com