اقلیتی اسکالرشپ اسکیم میں 144 کروڑ کا گھوٹالہ ، وزیر اسمرتی ایرانی نے جانچ سی بی آئی کو سونپی


اقلیتی اسکالرشپ اسکیم میں 144 کروڑ کا گھوٹالہ ، وزیر اسمرتی ایرانی نے جانچ سی بی آئی کو سونپی
 

 
   کئی ریاستوں میں فرضی استفادہ کنندگان، فرضی اداروں اور فرضی ناموں سے بینک اکاؤنٹ کا معاملہ اجاگر 


پہلی سے اعلیٰ تعلیم تک اقلیتی طلباء کو دی جانے والی اسکالرشپ میں ایک ہزار کروڑ روپے کے گھوٹالے کا امکان ،  تعلیمی اداروں اور نوڈل آفیسر جانچ کے دائرے میں





نئی دہلی : 20 اگست (بیباک نیوز اپڈیٹ) اقلیتی اسکالرشپ میں گھوٹالہ کا معاملہ سامنے آیا ہے۔ کئی ریاستوں میں فرضی استفادہ کنندگان، فرضی اداروں اور فرضی ناموں سے بینک اکاؤنٹ بنا کر کروڑوں روپے کا گھپلہ سامنے آیا ہے۔ یہ کیس مبینہ طور پر اقلیتی اداروں، ریاستی انتظامیہ اور بینکوں میں ادارہ جاتی بدعنوانی سے متعلق ہے۔  مرکزی وزیر اسمرتی ایرانی نے معاملے کی جانچ سی بی آئی سے کرانے کی ہدایت دی ہے۔  معلومات کے مطابق، مدارس سمیت 1572 اقلیتی اداروں کی جانچ میں 830 فرضی/ نان آپریشنل پائے گئے، جن میں 144 کروڑ روپے کا گھوٹالہ ہوا ہے۔

 صرف 5 سالوں میں 144.83 کروڑ روپے کا گھوٹالہ

 دراصل وزارت اقلیت نے 10 جولائی کو سی بی آئی کے پاس اپنی شکایت درج کرائی تھی۔  وزارت نے 34 ریاستوں کے 100 اضلاع میں اندرونی انکوائری کی ہے۔21 ریاستوں کے 1572 اداروں میں سے 830 ادارے جعلی پائے گئے ہیں۔ ان تمام اداروں کے اکاؤنٹس منجمد کرنے کے احکامات دیے گئے ہیں۔  تقریباً 53 فیصد جعلی امیدوار پائے گئے ہیں۔ پچھلے 5 سالوں میں صرف 830 اداروں میں 144.83 کروڑ روپے کا گھوٹالہ ہوا ہے۔ تاہم دیگر اداروں کی تحقیقات بھی جاری ہیں۔

اب تک کی جانچ پڑتال کے معاملات میں، اسکالرشپ کے حقیقی استفادہ کنندگان کو ہونے والے بڑے پیمانے پر نقصان اور بوگس استفادہ کنندگان کے ذریعہ سرکاری خزانے کو 144 کروڑ روپے کے نقصان کی تحقیقات کے لیے معاملہ سی بی آئی کو سونپا گیا ہے۔ اگر ذرائع پر یقین کیا جائے تو یہ کئی سطحوں پر ادارہ جاتی کرپشن ہے۔  ادارے یا تو غیر موجود ہیں یا غیر فعال ہیں لیکن نیشنل اسکالرشپ پورٹل اور یونیفائیڈ ڈسٹرکٹ انفارمیشن سسٹم فار ایجوکیشن (UDISE) دونوں پر رجسٹرڈ ہیں۔

 جانچ کے دائرے میں نوڈل افسر اور تعلیمی ادارے 

 سی بی آئی جانچ کرے گی کہ کس طرح اداروں کے نوڈل افسروں نے ٹھیک رپورٹیں دیں، کس طرح ضلع نوڈل افسران نے فرضی معاملات کی تصدیق کی اور کتنی ریاستوں نے اس گھوٹالے کو سالوں تک جاری رہنے دیا وغیرہ وغیرہ۔ اقلیتی امور کی وزارت کے ایک ذرائع نے انڈیا ٹوڈے کو بتایا کہ کس طرح بینکوں نے فائدہ اٹھانے والوں کے لیے جعلی اکاؤنٹس کھولنے کی اجازت دی۔  فرضی آدھار کارڈ اور کے وائی سی کی جانچ جاری ہے۔

 بتا دیں کہ اقلیتی اسکالرشپ کی اسکیم 2007-8 میں شروع ہوئی تھی، تب سے اب تک اس میں ہزاروں کروڑ روپے کے گھوٹالہ کا اندازہ ہے۔ اقلیتی امور کی وزارت ایک لاکھ 80 اداروں کو اسکالر شپ دیتی ہے۔  اس سے اقلیتی طلباء کو فائدہ ہوتا ہے جو پہلی جماعت سے اعلیٰ تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔


ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے