فسادات سے صرف نقصانات ، ترقی نہیں تنزلی ہوتی ہیں ، تمام مذاہب کے لوگوں نے مل کر فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو برقرار رکھنے کے لیے 100 سالہ امن معاہدہ کو منظوری دی
مہاراشٹر کے گاؤں میں ہندو ۔ مسلم اتحاد کا عظیم الشان نظارہ ، تین دریاؤں کے سنگم پر آباد اس گاؤں میں پیار ، امن و محبت کی داستان لکھی جاتی ہیں
گاؤں میں نصب امن معاہدے کا بورڈ سڑک سے گزرنے والے لوگوں کی توجہ اپنی جانب مبذول کر رہا ہے
رتنا گیری : 9 مئی (بیباک نیوز اپڈیٹ) سونڈےگھر گاؤں میں نصب یہ بورڈ سڑک سے گزرنے والے لوگوں کی توجہ اپنی جانب مبذول کر رہا ہے۔ سوندےگھر مہاراشٹر کے رتناگیری ضلع کا ایک چھوٹا سا گاؤں ہے۔ جہاں کی آبادی بمشکل ایک ہزار ہے۔ اس گاؤں میں تمام ذاتوں اور مذاہب کے لوگ مل جل کر رہتے ہیں۔ گاؤں نے متفقہ طور پر ایک تاریخی فیصلہ لیا ہے تاکہ کوئی مذہبی یا فرقہ وارانہ تنازعہ نہ ہو۔
گاؤں میں تمام مذاہب کے لوگوں نے مل کر فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو برقرار رکھنے کے لیے 100 سال کا معاہدہ کیا ہے۔ جب ملک کے کچھ حصوں میں فرقہ وارانہ کشیدگی کے واقعات منظر عام پر آ رہے ہیں، تو سونڈےگھر نامی گاؤں کے فیصلے کی کافی تعریف کی جا رہی ہے۔
گاؤں کیوں آباد ہوا؟
گاؤں کے ایک استاد عبداللہ ناندگاؤںکر کہتے ہیں، "سانے گروجی پالگڈ سے داپولی کے اے جی ہائی اسکول جاتے ہوئے اس گاؤں میں دریا پار کرتے تھے۔ بعد میں انھوں نے پیغام دیا کہ دنیا میں محبت پھیلانا ہی اصل مذہب ہے۔ انکے دئے گئے پیغام کی مدد سے ہم آگے بڑھ رہے ہیں۔
گاؤں والوں کا کہنا ہے کہ انھوں نے یہ اتحاد اس لیے کیا ہے تاکہ ان کے گاؤں کا امن خراب نہ ہو اور اتحاد برقرار رہے۔ خاص بات یہ ہے کہ اس گاؤں کے ہندو، مسلم اور بدھ مذہب کے لوگوں نے متفقہ طور پر یہ معاہدہ منظور کیا ہے۔
سونڈےگھر قدرتی حسن سے بھرپور ایک بہت ہی خوبصورت گاؤں ہے۔ یہ گاؤں تین دریاؤں کے سنگم پر بنا ہے۔ ان میں پالگڈ ندی، ونیشی ندی اور گاؤں کی ایک ندی شامل ہے۔
سونڈےگھر گرام پنچایت نے گاؤں کے داخلی دروازے کے پاس اتحاد کے معاہدے کا بورڈ لگا دیا ہے۔ یہ دیکھ کر سڑک سے گزرنے والے لوگ بحث کر رہے ہیں۔
گاؤں کی تنت مکتی سمیتی کے چیئرمین سنجے کھنولکر نے بی بی سی ہندی سے بات چیت میں کہا، 'ملک میں مذہبی ماحول بہت خراب ہو چکا ہے، ہم گاؤں کے لوگوں نے اکٹھے ہو کر ایک امن معاہدہ کیا تاکہ ہمارے گاؤں میں تشدد نہ ہو۔ اس خراب مذہبی ماحول سے متاثر ہوئے ہیں۔ ہم نے پالگڈ بیٹ پولیس انسپکٹر وکاس پوار کی مدد سے ایک مثبت قدم اٹھایا ہے۔"مذہب اور ذات پات سے ہٹ کر لوگ یہاں اپنی محبت کی داستانیں لکھتے ہیں۔
سونڈےگھر گاؤں اور صد سالہ امن معاہدہ
سوندےگھر گاؤں کی آبادی 400 مسلمان، 400 ہندو اور 200 بدھ مت کے پیروکاروں پر مشتمل ہے۔ تمام برادریوں کے لوگ اکٹھے ہوئے اور ایک منٹ میں یہ تاریخی فیصلہ لیا۔
گاؤں کے ڈپٹی سرپنچ جتیندر پوار نے کہا، "اس گاؤں میں کبھی کوئی فرقہ وارانہ یا مذہبی جھگڑا نہیں ہوا ہے۔ ہم نے یہ معاہدہ 100 سال سے اس لیے کیا ہے تاکہ آئندہ بھی ایسا کبھی نہ ہو۔ ہماری آنے والی نسلیں بھی اس فیصلے کی تعریف کریں گی۔ ہمارا گاؤں محفوظ رہے گا ۔
گاؤں کے رہنے والے انیل ماروتھی مرچنڈے فخر سے کہتے ہیں، "ہمارے گاؤں کے لوگ شاہو پھولے امبیڈکر کے خیالات پر یقین رکھتے ہیں۔ پچھلے 50 سالوں میں ہمارے درمیان کبھی کوئی جھگڑا نہیں ہوا، جسے ہم اپنا فخر سمجھتے ہیں۔ میں آپ کو گیارنٹی دیتا ہوں کہ نہ صرف 100 سالوں میں بلکہ مستقبل میں اس گاؤں میں کبھی فساد نہیں ہوگا۔
باہمی فیصلہ
سوندےگھر گاؤں کے نوجوان اس فیصلے کی حمایت کرتے ہیں۔ گاؤں کے رہائشی الطاف پٹھان کا کہنا ہے کہ ہمارے لیے بے روزگاری کا مسئلہ بڑا ہے، اگر جھگڑا ہو جائے تو کھانا نہیں ملتا، ہمیں روزانہ کمانے کے لیے جدوجہد کرنا پڑتی ہے، فساد کو کوئی ترجیح نہیں دے سکتا۔ 100 سال کا معاہدہ ہمارے مستقبل کا بہترین فیصلہ ہے۔
گاؤں کی خواتین نے بھی 100 سال کے لیے کیے گئے معاہدے کا خیر مقدم کیا ہے۔ گاؤں کی خواتین کا کہنا ہے کہ وہ بھی مردوں کے ساتھ اس عمل کا حصہ ہیں۔
اوشا مرچنڈے کہتی ہیں، "گاؤں کی خواتین چھوٹے چھوٹے جھگڑوں کو حل کرنے میں سب سے آگے ہیں۔ گاؤں کی سطح پرہم باہمی افہام و تفہیم کے ساتھ فیصلے کرتے ہیں۔ ہم مردوں کے ساتھ مل کر اس گاؤں میں امن برقرار رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہمارے گاؤں میں فسادات نہیں ہوتے اور اب ہمیں اس کی فکر نہیں ہے۔
گاؤں کے سرپنچ الیاس ناندگاؤںکر فخر کے ساتھ کہتے ہیں، "ہم نے یہ فیصلہ اس لیے لیا تاکہ نہ صرف ہمارے بلاک کے لوگ، بلکہ ضلع کے لوگ بھی ایسے فیصلے لیں۔ ملک کو اس فیصلے سے سمجھنا چاہیے کہ آپ کو تنازعات سے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ اور ہم امید کرتے ہیں کہ آپ بھی اسے سمجھ گئے ہوں گے۔ مجھے اپنے گاؤں کے فیصلے پر فخر ہے۔"سرپنچ کا کہنا ہے کہ گاؤں میں امن ہوگا تو گاؤں ترقی کرے گا۔وہ کہتے ہیں کہ یہ فیصلہ ہم نے لیا ہے ملک بھر کی عوام بھی ایسا فیصلہ لے سکتے ہیں۔
0 تبصرے
bebaakweekly.blogspot.com