پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا پیارا بچپن،
"طلوعِ جمالِ صبحِ سعادت."
قسط 1
پشکش: رضوی سلیم شہزاد، رضا اکیڈمی مالیگاؤں۔
(افادہ: پیارے نبی کا پیارا بچپن، از منصور احمد بٹ، شائع کردہ امام احمد رضا اکیڈمی،بریلی شریف)
اللہ کے آخری رسول صلی اللہ علیہ وسلم پیر کے روز 12 ربیع الاول کو اس دنیائے آب و گِل میں تشریف لائے. یہی وہ دن تھا جب ایوانِ کِسری لرز اُٹھا. زلزلے سے اُس کے چَودہ کنگورے گِر گئے. آتش کدہء فارس جو ایک سال سے روشن تھا، بجھ گیا. بحیرہء ساوی خشک ہوگیا.
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی والدہء محترمہ، حضرتِ آمنہ بنت وہب رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: "جب میں نے ننھے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو جنم دیا تو ایک عظیم نور دیکھا جو پھیلتا گیا، یہاں تک کہ شاہانِ شام کے محلات بھی میری نظروں میں روشن ہوگئے. آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی گندگی کے بغیر پاک و صاف پیدا ہوئے."
وقتِ ولادت کرہء ارض نور سے روشن ہوگیا.
حضرت عثمان بن ابی العاص رضی اللہ عنہ کی والدہ، حضرتِ شفاء رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: "ولادت کے وقت جدھر نظر جاتی تھی، نور ہی نور تھا."
حضرتِ شفاء رضی اللہ عنہا جو دایا تھیں، بیان فرماتی ہیں:
"آپ صلی اللہ علیہ وسلم میرے ہاتھوں میں آئے تو حالتِ سجدہ میں انگشت اُٹھائے، ناف بُریدہ، اور ختنہ شدہ تھے. ایک آواز بھی آئی. رَحِمُکَ ربُّکَ." ربِّ کریم تم پر رحم فرمائے."
اتنے میں اُفقِ مشرق و مغرب کا مابین اور روئے زمین میں روشن ہوگیا، کچھ ہی وقت گذرا تھا کہ مجھے تاریکی اور خوف نے آگھیرا، میرے رونگٹے کھڑے ہوگئے، کسی نے کہا:
"نومولود کو کہاں لے گئے؟"
جواب آیا: "مغرب کی طرف." دوبارا وہی کیفیت طاری ہوئی، اور میری بائیں جانب ایک نور نمودار ہوا، ساتھ ہی آواز آئی: "نومولود کو کہاں لے گئے؟" جواب ملا. "مشرق کی طرف."
حضرتِ شفاء رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: یہ آوازیں میرے دل پر نقش ہوکر رہ گئیں، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلانِ نبوّت فرمایا تو میں سب سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق کرنے والوں میں شامل ہوگئی."
حضرتِ فاطمہ بنت عبداللہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کے وقت میں نے خانہء کعبہ کو دیکھا کہ نور سے معمور ہوگیا ہے، اور ستارے زمین سے اس قدر قریب آگئے کہ میں سمجھی مجھ پر گِر پڑیں گے."
قریشِ مکہ کے چند معتبر افراد، ورقہ بن نوفل، زید بن عمرو بن نفیل، عبیداللہ بن جحش اور عثمان بن حویرث ایک بُت کے پاس جمع ہوا کرتے تھے. ایک رات انہوں نے اس بُت کو منہ کے بَل گرا ہوا پایا. انہوں نے اس بات کو مکروہ جانتے ہوئے اس بُت کو سیدھا کھڑا کردیا. مگر وہ پھر منہ کے بَل گر گیا. بعد میں عثمان بن حویرث نے بتایا:
"یہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کی رات تھی." مفتی عنایت احمد کاکوروی شہید لکھتے ہیں: "یہ بات سوائے اہلِ اسلام کے زردشتیوں کی تاریخ میں بھی لکھی ہے، روئے زمین کے سارے بُت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کے وقت سَرنِگوں ہوگئے تھے."
وقت ولادت وحدانیت کی گواہی۔
حضرت آمنہ رضی اللہ تعالی عنہا فرماتی ہیں ہیں:
"جب محمد صلی اللہ علیہ وسلم پیدا ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سجدے میں پڑ گئے اور دونوں انگلیاں آسمان کی طرف اٹھائے ہوئے تھے۔" آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سجدہ میں جانے کے بعد انگلی آسمان کی طرف اٹھا کر فصیح زبان میں فرمایا: "اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور بے شک میں اللہ کا رسول ہوں۔"
جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پیدا ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کلام فرمایا اور کہا: "میرے پروردگار کا جلال بہت بلند ہے۔" ایک دوسری روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اللہ تعالی بہت بڑا ہے، اسی کے لئے کبریائی ہے اور اللہ تعالی کے لیے بہت تعریفیں ہیں اور اللہ تعالی کے لیے صبح و شام پاکیزگی ہے۔"
حضرت آمنہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: بادل کا ایک ٹکڑا نمودار ہوا۔ جس کے باعث محمد صلی اللہ علیہ وسلم آنکھوں سے اوجھل ہوگئے، میں نے آواز سنی:
"محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو تمام عالم کی سیر کرائی گئی ہے، تاکہ تمام مخلوق آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صفات، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صورت اور اسم گرامی سے آشنا ہو جائے، یہ بادل صرف ایک لمحہ کے لئے منور رہا۔ اس کے بعد پہلے سے بڑا بادل آیا، میں نے انسانوں اور گھوڑوں کی آوازیں سنیں، ایک آواز سنائی دی: محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو تمام جن و انس اور چرند و پرند دکھائے گئے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو آدم علیہ السلام کی صفوت و بزرگی، نوح علیہ السلام کی رقٌت، حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سی آزمائش، داؤد علیہ السلام کی صورت، ایوب علیہ السلام کا صبر، یحیی علیہ السلام کا زُہد، عیسی علیہ السلام کی سخاوت عطا ہوئیں۔ یہ بادل بھی صرف ایک لمحہ کے لیے روشن ہوا۔"
ننٌھے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا نور…
دایہ نے ننھے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کے وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نہلانے کا ارادہ کیا تو ننھے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فصیح زبان سے فرمایا:
"میں آبِ رحمت سے غسل دیا گیا ہوں، ازل میں بھی پاک تھا، اور اب بھی پاک پیدا ہوا ہوں۔"
ننٌھے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا نور ہر جگہ مشرق، مغرب، شمال، جنوب اور زمین و آسمان پر پھیل گیا، اس وقت یمن کے ایک بت خانے میں عامر نامی شخص بیٹھا ہوا تھا، وہ آسمان سے ملائکہ کو اترتے اور پہاڑوں اور درختوں کو سجدہ کرتے دیکھ دیکھ کر حیران ہو رہا تھا، کہ اس کا بت اوندھا گرگیا اور اس میں سے آواز آئی:
وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جن کا انتظار تھا، اس دنیا میں تشریف لے آئے ہیں، ان سے درخت اور پتھر کلام کریں گے، ان کے اشارے سے چاند دو ٹکڑے ہو جائے گا۔" عامر کی بیوی نے بت سے یہ سن کر معلوم کیا: "اس نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا نام کیا ہے؟ اور کہاں پیدا ہوئے۔؟" بت نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام بتایا، عامر کی ایک اپاہج بیٹی تھی، جب اس نے ولادتِ مبارک کا نور دیکھا تو عرض کیا: الہی! اس نور میں اگر برکت ہے تو اس کا حصہ مجھے بھی ملے۔" اس پر وہ فوراً تندرست ہوگئی۔
عامر اپنی بیٹی کی اس تندرستی پر سخت حیران ہوا، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کے لئے مکہ پہنچا۔ تلاش کے بعد حضرتِ آمنہ رضی اللہ عنہا کے درِ دولت پر آیا، عرض کی: "خدا کے واسطے، مجھ غریب الوطن عاشقِ زار کو اپنے صاحبزادے کا جمال دکھا دیں۔"
حضرت عبدالمطلب، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو گود میں اٹھا کر لے آئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھتے ہی عامر، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں میں جاں بحق ہوگیا۔
شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں: کعب نے قدیم زمانہ کی کتابوں کے حوالے سے یوں تحریر کیا ہے: محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت مکہ میں اور ہجرت مدینہ کو ہوئی۔ شام آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ملک ہے، اسی نسبت سے معراج کی شب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مملکتِ شام کی جانب بیت المقدس تک لے جایا گیا۔"
0 تبصرے
bebaakweekly.blogspot.com