پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا پیارا بچپن ، بنی اسرائیل کے گھر سے نبوت رخصت ہوئی اور بنی اسمعیل کو اس سے مشرّف کیا گیا۔


پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا پیارا بچپن ، بنی اسرائیل کے گھر سے نبوت رخصت ہوئی اور بنی اسمعیل کو اس سے مشرّف کیا گیا۔

قسط نمبر 2
پشکش: رضوی سلیم شہزاد، رضا اکیڈمی مالیگاؤں۔
(افادہ: پیارے نبی کا پیارا بچپن، از منصور احمد بٹ، شائع کردہ امام احمد رضا اکیڈمی،بریلی شریف)

ستارہء نبوت کا طلوع ہونا:

مکہ میں ایک یہودی رہتا تھا، جو تورات اور انجیل کا عالم تھا، جب وہ جمالِ صبحِ سعادت طلوع ہوگئی اور نورِ محمدی صلی اللہ علیہ وسلم مجسم ہو کر دنیا میں جلوہ گر ہوگیا تو اس نے پوچھا: "اے اہل قریش! کیا رات تم میں کوئی بچہ پیدا ہوا ہے؟" قریش نے جواب دیا: "ہمیں اس کا علم نہیں۔" اس یہودی عالم نے کہا: تم لوگ جاکر تحقیق کرو، ہماری آسمانی کتابیں کہتی ہیں کہ کل وہ ہستی ظہور میں آ گئی ہے، جسے نبیِ آخرالزماں صلی اللہ علیہ وسلم ہونا ہے۔" قریش کے گھر گھر سے خبر لی گئی، معلوم ہوا کہ سردارِ مکہ کی بہو آمنہ زوجہ عبداللہ رضی اللہ عنہم کی گود ہری ہوئی ہے۔ اللہ رب العزت نے ان کی گود میں ایک پھول ڈال دیا ہے۔ 
یہودی عالم نے یہ اطلاع پاکر کہا: "افسوس! نبوت بنی اسرائیل سے چلی گئی اور ان کے ہاتھوں سے کتابِ الہی بھی نکل گئی۔"
شاعرِ بزمِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم، حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں، مجھے اچھی طرح معلوم ہے، میری عمر سات سال کی تھی کہ ایک دن میں نے ایک یہودی عالم کو یثرب (مدینہ) کے ایک بلند مقام پر آواز لگاتے سنا۔" "ائے گروہِ یہود!" جب تمام یہود جمع ہوگئے تو اس نے کہا: آج رات احمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ستارہ طلوع ہوگا، جس میں وہ پیدا ہوگا۔"

صنم خانے ہوئے خاک آلود:

دنیا میں جب بھی عظیم المرتبت انسان پیدا ہوتے ہیں، تو کوئی نہ کوئی غیر معمولی واقعہ ضرور رونما ہوتا ہے، سیرت نگاروں نے اپنے مخصوص انداز میں گل افشانی کرتے ہوئے ہدایہء عقیدت پیش کیا: "آج کی رات، ایوانِ کسریٰ کے چودہ کنگورے گرگئے، آتش کدہء فارس بجھ گیا، دریائے سماوی خشک ہوگیا۔" انہوں نے کچھ غلط بھی نہیں کہا: مولانا شبلی نعمانی نے توجیہ کی تو لکھا: "لیکن یہ سچ ہے کہ ایوان کسریٰ نہیں، بلکہ شانِ عجم، شوکتِ روم، اوجِ چین کے قصرہائے فلک بوس گر گئے، آتشکدہء فارس نہیں بلکہ جحیمِ شر، آتش کدہء کفر، آذر کدہء گمراہی سرد ہوکر رہ گئے، صنم خانوں میں خاک اڑنے لگی۔ بت کدے خاک میں مل گئے، شیرازہء مجوسیت بکھر گیا، نصرانیت کے اوراق خزاں دیدہ ایک ایک کرکے جھڑ گئے اور تاریخ اس کی شاہد ہے۔"
حضرت عیسی علیہ السلام نے بھی اور کئی پیغمبروں کی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کی اطلاع پہلے سے دے دی تھی۔ حضرت عیسی علیہ السلام، رسولِ برحق صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کی بشارت سے بہت پہلے ہی آگاہ فرما چکے تھے۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کی نشانیاں:

جس رات اللہ کے آخری رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت ہوئی تو کسریٰ شاہ ایران کا محل جنبش کھا گیا، اس کے چودہ کنگورے گرگئے۔ آتشکدہ فارس جو ہزار سال سے روشن تھا، بجھ گیا، ایسا سرد پڑگیا کہ ہزارہا کوششوں کے باوجود آگ روشن نہ ہوسکی۔ جب کسریٰ کے ایوان کے چودہ کنگرے گرے، اس میں اشارہ تھا، چودہ حکمرانوں کے بعد ملکِ فارس، خادمانِ اسلام کے زیرِنگیں آجائے گا۔ کسریٰ، محل کی جنبش اور چودہ کنگورے گرنے کی وجہ سے سہم گیا اس پر بےقراری کا عالم طاری ہو گیا۔ اسے آتشکدہ فارس کے سرد ہونے کی خبر مل گئی اور اسی وقت موبد موبدان نے اپنے خواب کا ذکر بھی بادشاہ سے کردیا اور کہا:"یہ بہت بڑا سانحہ ہے جو عرب میں پیدا ہوا ہے۔"
دریائے ساویٰ بھی خشک ہوچکا تھا، دریائے ساویٰ کے کنارے شرک اور بت پرستی ہوا کرتی تھی، بادشاہ نے عبدالمسیح غسانی کو اس کے چچا سطیح غسانی کی طرف بھیجا۔ اس کا چچا بیمار تھا۔ عبدالمسیح نے اشعار پڑھنے شروع کر دیے۔ جب سطیح غسانی نے اس کا شعر سنا تو آنکھ کھلی اور کہا: "تجھے شاہ ایران نے بھیجا ہے، دیکھو آتشکدہ کا بجھنا یا ٹھنڈا ہونا، ایوانِ کسریٰ کے کنگروں کا گرنا، موبد موبدان کا خواب دیکھنا، محل کا جنبش کھانا، دریائے ساویٰ کا خشک ہونا اور سماویٰ کا جاری ہونا، یہ سب کے سب محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کی آمد کی نشانیاں ہیں اور اس بات کی علامت ہیں کہ وہ اس سر زمین پر قبضہ کرلیں گے، اب صرف چودہ ایرانی بادشاہ حکومت کریں گے، پھر ان کی حکومت ختم ہو جائے گی۔" اور پھر ایسا ہی ہوا.

شام کے محلات اور اکنافِ عالم منّور ہو گئے:

امام احمد، بزاز، طبرانی، حاکم اور بیہقی نے حضرت عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں خاتم النبیین ہوں۔ میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا اور عیسی علیہ السلام کی بشارت ہوں، اور اپنی والدہ ماجدہ کے خواب کی تعبیر ہوں، جیسے تمام انبیاء کرام کی مائیں، انبیاء کی ولادت سے پہلے دیکھا کرتی تھیں۔"
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی والدہ ماجدہ حضرت آمنہ رضی اللہ عنہا نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کے وقت ایک نور دیکھا، یعنی ایک نور ظاہر ہوا، جس سے ملک شام کے محل اور اکنافِ عالَم منور ہوگئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی والدہ ماجدہ اور مکہء مکرمہ کے رہنے والوں کو ملک شام کے قیصری محل نظر آگئے۔
اسے حضرت ابوامامہ رضی اللہ عنہ نے روایت کیا ہے، اس کو حافظ ابن حجر عسقلانی نے روایت کیا ہے، ابن حبان اور حاکم نے اس کی تصحیح کی ہے۔

بنی اسرائیل کے گھر سے نبوت رخصت ہو گئی:

امام ابن اسحاق نے اپنی سیرت میں حضرت ہشام بن عروہ رضی اللہ عنہ سے یہ روایت نقل کی ہے کہ ان کے والد نے ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت کیا ہے: "ایک یہودی تجارت کے لیے مکہ مکرمہ میں رہائش پذیر تھا، جب شبِ میلاد آئی تو وہ یہودی سردارانِ مکہ کی محفل میں آیا اور پوچھا، کیا تمہارے ہاں آج شب کسی کے ہاں بچہ پیدا ہوا ہے؟" سردارانِ مکہ نے کہا: ہمیں اس بات کا علم نہیں شاید کسی بچہ کی ولادت ہوئی ہو۔" اس یہودی نے کہا: تم لوگ تحقیق کرو۔ ہماری کتب میں جو کچھ مرقوم و منقول ہے،اس کی رو سے آج پیر کے دن ایک نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) پیدا ہوا ہے، اگر تم میں سے نہیں تو فلسطین میں ہوگا، جس کے کندھوں کے درمیان گول جگہ ابھری ہوئی ہے، اس پر سخت بالوں کی مہرِ نبوت ہے، یہ اس بچے کی نشانی ہوگی۔" وہ لوگ اس یہودی کی باتوں پر تعجب کرتے ہوئے اپنے گھروں کو روانہ ہو گئے۔ اس نے ازراہ تعجب کہا: "اللہ اکبر! تم اپنے گھر والوں سے ضرور دریافت کرنا۔" معلوم کرنے پر علم ہوا، عبداللہ رضی اللہ عنہ بن عبدالمطلب کو اللہ تعالی نے بیٹا عطا کیا ہے، جس کا نام محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) رکھا ہے۔ انہوں نے اُس یہودی کو اِس سے آگاہ کیا تو اس نے کہا: "میں اس بچے کو دیکھنا چاہتا ہوں۔" وہ لوگ یہودی کو لے کر حضرت آمنہ رضی اللہ عنہا کے گھر آئے اور بچے کے دیدار کی درخواست کی۔ جب اُس نے ننّھے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان وہ علامات دیکھیں تو بے ہوش ہوگیا، کچھ دیر بعد جب ہوش آیا تو اس یہودی سے معلوم کیا گیا: "تجھے کیا ہوگیا تھا، آخر تم بے ہوش کیوں ہوئے؟" اس یہودی نے انتہائی حسرت سے کہا: "آج بنی اسرائیل کے گھر سے نبوت رخصت ہوگئی ہے، اور بنی اسماعیل اس سے مشرّف کردیئے گئے ہیں۔" ائے قریش! یہ بچہ تم میں سطوت و جلال پائے گا، خدا کی قسم یہ مشرق و مغرب کا مالک ہوگا، قیامت تک کے لئے اس کی حکومت جاری و ساری رہے گی، مشرق و مغرب تک تمہاری گونج سنائی دے گی۔" اس وقت یہ لوگ ہشام بن مغیرہ، ولید بن مغیرہ اور عتبہ بن ربیعہ، عبادۃ الحارث بن عبدالمطلب موجود تھے۔
صحیح مسلم کی روایت ہے: "آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دونوں کندھوں کے درمیان مہر نبوت تھی۔ مہرِ نبوت ابھری ہوئی تھی۔ یہ وہ علامت ہے جس سے اللہ کے آخری رسول صلی اللہ علیہ وسلم پہچانےجاتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہی پیغمبر ہیں جن کی بشارت سابقہ آسمانی کتب میں دی گئی تھی۔" 
خاتم النبوت صلی اللہ علیہ وسلم، اللہ تعالی کی نشانیوں میں سے ایک ایسی نشانی تھی کہ جس سے نبی ارض و سما صلی اللہ علیہ وسلم مخصوص کئے گئے تھے۔ آپ کے ساتھ ایک عظیم سِرّ (بھید) مخصوص تھا جو کسی دوسرے پیغمبر کے ساتھ نہ تھا۔

                      (Advertisement) 

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے