کووڈ 19 کے خلاف جنگ جیتنے میں مقامی اخبارات اور کالم نگاروں کا مثبت کردار، کریڈٹ کی جنگ نہیں، سچائیوں کو آشکار کیا جانا چاہیے


کووڈ 19 کے خلاف جنگ جیتنے میں مقامی اخبارات اور کالم نگاروں کا مثبت کردار، 

کریڈٹ کی جنگ نہیں، سچائیوں کو آشکار کیا جانا چاہیے

غلطیوں کی اصلاح اور مثبت اقدام کی ستائش سے قوموں کا وقار بلند ہوتا ہے 



از: (رضوی سلیم شہزاد، مالیگاؤں) 
Mail: rsshahzad@gmail.com

              مہاراشٹر کے مالیگاؤں شہر میں وارد عالمی وباء کووڈ 19 کو شکست دے کر اس وباء پر قابو پانے میں جن کاوشوں کا ذکر ہونا چاہیے اُن میں اب بھی بہت سے نکات ایسے ہیں جن پر عوام وخواص کی قابلِ ذکر توجہ مبذول نہیں ہوسکی ہے. جنہیں حقیقت میں کرونا وارئیرس کہا جانا چاہیے. جن کا نام کرونا وارئیرس کی پہلی صفوں میں لیا جانا چاہیے وہ ہیں مقامی اردو اخبارات اور اُن کے کالم نگاران. اس لئے کہ جب مالیگاؤں میں کرونا کے ابتدائی کیسس نکلے تو شہر سمیت پوری ریاست کی عوام اور حکومتی عملوں میں کھلبلی سی مچ گئی تھی. ہر طرف خوف و ہراس اور سنسنی کا ماحول تھا. شہریان جو اب تک سوشل میڈیا کے ذریعہ کووڈ 19 کی تباہ کاریاں دیکھ اور سن رہے تھے، جو مختلف پریشان کن ویڈیوز کو دیکھ دیکھ کر کووڈ 19 سے متاثرہ مریضوں کی کسمپرسی اور لاچاری کا مشاہدہ کررہے تھے ان میں انجانا خوف اور شدید دہشت طاری ہونا فطری امر تھا. یہی وجہ تھی کہ مالیگاؤں میں لاک ڈاؤن کے دوران کرونا 19 کے ابتدائی مریضوں کی بازیافت یا تشخیص کے بعد شہر کا ہر کوچہ و بازار خوف و دہشت اور تشویش کا مظہر بنا ہوا تھا. احتیاطی تدابیر پر مزید سختی سے عمل پیرا ہونے کی باتیں زبان زد عام ہورہی تھیں، ہر کوئی ایکدوسرے کو نصیحتوں کے ساتھ گھریلو علاج اور احتیاطی تدابیر کی جانب متوجہ کررہا تھا... ایسے میں شہر کے اُن علاقوں میں جہاں ابتدائی مریضوں کی نشاندہی کی گئی، اُن علاقوں میں لاک ڈاؤن پر عمل آوری کرانے والی، جگہ جگہ تعینات عارضی پولس چوکیاں خالی ہوگئی تھیں. شہر بھر میں لوگوں نے احتیاطی تدابیر کے طور پر ازخود اپنی گلیاں، چوراہے اور اپنے علاقے بانس بَلّیوں سے سیل کرنا شروع کردیا تھا...متاثرہ علاقوں کے علاوہ دیگر گلی کوچوں اور محلوں کے افراد بھی احتیاطی اقدامات کے طور پر اپنے علاقوں کو سیل کرنے لگے... ایسے حالات میں شہریان کی قدم قدم پر رہنمائی کرنے اور حالات سے باخبر رکھنے کا فریضہ جن لوگوں نے انجام دیا، ان میں شہر سے نکلنے والے اردو اخبارات اور ان کے کالم نگاروں کا شمار بھی ہونا چاہیے، جنہوں نے شہر میں پھیلی بے چینی، سنسنی اور تشویشناک حالات کا بہتر تجزیہ عوام کے سامنے تسلسل کے ساتھ پیش کیا. خوف و دہشت میں مبتلا نہ ہونے اور احتیاطی تدابیر اختیار کرنے پر عوام و خواص کو آمادہ کیا. سوشل میڈیا اور غیر معتبر ذرائع سے عوام میں پھیلی جھوٹی خبروں کا جہاں پوسٹ مارٹم کیا وہیں حقائق پر مبنی باتوں کو اُجاگر کرکے دلوں سے ڈر و خوف کو دور کرنے کی حتی المقدور کوششیں کیں. وبائی امراض کو لے کر مذہبی تصورات، نفسیاتی تعلیمات اور اخلاقی بنیادوں پر شہریان کی ذہن سازی کی اور سب سے اہم کام یہی کیا کہ عوام و خواص کے دلوں سے کووڈ 19 کا ڈر و خوف نکالنے میں کامیاب رہے. 
پورا شہر اس بات کا گواہ ہے کہ حکومت کے ایک غلط حکمنامے نے شہر کے گلی کوچوں میں جاری چھوٹے بڑے کلینک اور ڈسپنسریز کو یکایک بند کروا دیا. بہت سارے چھوٹے بڑے اسپتال تو پہلے ہی بند ہوچکے تھے. مَرے پر سَو دُرّہ کے مصداق حکومتی حکمنامے نے شہر میں موجود اُن ہزاروں مریضوں کی مشکلات میں شدید اضافہ کردیا جو کسی دوسرے امراض کے نئے یا پرانے شکار تھے. ان کی نہ تو بروقت صحیح تشخیص ہوسکی اور نہ ہی ضرورت کے مطابق طبی امداد میسر ہوئی. کرونا کا خوف جیسے عام انسانوں میں تھا ویسے ہی ڈاکٹروں اور اسپتالوں سے منسلک طبی عملہ بھی انجانے خوف کا شکار تھا... اور شعبہء طبّ سے جُڑے ان میڈیکل افراد میں بھی خوف کا پایا جانا فطری امر تھا بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ بہت سارے ڈاکٹرس اور اسپتالوں کے اسٹاف میں کووڈ 19 کے عروج کے وقت کرونا سے اتنا خوف نہیں تھا جتنا حکومت کی غلط پالیسیوں اور عوام و خواص (ڈاکٹرس) کو ایک ہی لکڑی سے ہانکنے کے عمل سے تھا، تو یہ بات غلط بھی نہیں... ظاہر سی بات ہے کووڈ 19 عروج کے وقت میں اگر ایک ڈاکٹر کسی مریض کا علاج کرتے ہوئے خود متاثر ہوجائے اور جان جوکھم میں ڈال دے تو اسے اور اس کے اہل خانہ کو کوئی خصوصی سہولت ملنا تو دور کی بات تھی بلکہ انہیں بھی اُن ہی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑرہا تھا جتنا کہ ایک عام مریض اور اس کے گھر والوں کو دقتیں تھیں. کوارنٹائین سینٹرس میں کرونا متاثر افراد کے اہل خانہ جس کسمپرسی کے عالم میں تھے اسے ڈاکٹروں سے بہتر کون جان سکتا ہے. یہی وجہ تھی کہ اکثر ڈاکٹرس چاہ کر بھی محض اس لئے اپنے دواخانے بند کر رکھے تھے کہ اُن کی وجہ سے اُن کے اہل و عیال کو پریشانیوں میں مبتلا نہ ہونا پڑے. جبکہ ہونا یہ چاہیے تھا کہ اگر کوئی ڈاکٹر کرونا سے متاثر ہوتو علاج و معالجہ میں اسے اس کے اسٹیٹس کے مطابق ٹریٹ کیا جائے، مگر ایسا نہیں ہوا. جس کے سبب بہت سے ڈاکٹرس موت کا شکار بھی ہوئے. ایسے حالات کو محسوس کرتے ہوئے مالیگاؤں شہر کے اخبارات اور کالم نگاروں نے ڈاکٹرس اور پیرا میڈیکل اسٹاف کی ہمت بڑھانے اور تقدیر پر بھروسہ رکھتے ہوئے تدبیر پر عمل پیرا ہونے کی صلاح دی. اخبارات کے ذریعہ مسلسل ایمان و یقین کی پختگی پر اسلامی تعلیمات اور اخلاقی اقدار کو اُجاگر کرنے کا فریضہ انجام دیا. شہریان کی مسلسل رہنمائی کرتے رہے، لوگوں کے دلوں سے ڈر و خوف دور کرنے کی کوشش کرتے رہے. شعبہء طب سے منسلک ذمہ داران کے ساتھ عوام کی ہمت بندھاتے رہے. جس کے سبب لوگوں کے دلوں سے ڈر و خوف دور ہوتا گیا، ہمت پیدا ہوئی تو کرونا وائرس سے لڑنے کی قوتِ مدافعت بھی لوگوں میں بڑھتی گئی، ایسے وقت میں مالیگاؤں کی باوقار مذہبی سماجی اور تعلیمی تنظیم رضا اکیڈمی نے ہوپس انڈیا ممبئی کے توسط سے ڈاکٹرس اور پیرا میڈیکل اسٹاف کے لئے حفاظتی کٹس کا انتظام کیا... جس سے نہ صرف محلہ کلینک کے ڈاکٹرس بلکہ بڑے اسپتالوں کے طبی ذمہ داران نے بھی استفادہ کیا... اور پٹری سے ہٹے شعبہء طب کو لائن پر لانے میں مدد ملی... اس طرح دھیرے دھیرے دواخانے کھلنے شروع ہوئے اور کرونا سمیت دیگر امراض میں مبتلا مریضوں کا علاج و معالجہ دوبارہ جاری ہوا. یہ وہ حالات ہیں جس نے مالیگاؤں پیٹرن کو وجود بخشا، ورنہ کرونا بیماری کو شکست دینے کے نام پر حکومتی اقدامات تو محض بے سمت ہاتھ پیر چلانے کے مصداق تھے. کارپوریشن کے بہت سارے آفیسران اور کرمچاری اگر مستعد اور چاک و چوبند تھے تو وہیں ریاستی انتظامیہ کے افراد اور آفیسران بند کمروں میں بیٹھے محض کاغذی تجربات میں منہمک تھے. بہر حال جن سیاسی سماجی مذہبی جماعتوں کے ارکان نے، جن حکومتی انتظامی عہدیداران نے اور جن ڈاکٹرس و پیرا میڈیکل اسٹاف نے کووڈ 19 وباء کے دوران شہر کی عوام کی خدمت کی ہے انہیں بحیثیت مسلمان دنیاوی  ایوارڈ اور توصیف نامے کی بجائے اللہ و رسول کی بارگاہ سے اجر و ثواب کی امید رکھنا چاہیے، یہی اصل کامیابی ہے. اور جو افراد بنا کسی خدمت کے توصیفی اسناد حاصل کررہے ہیں انہیں آخرت کی جوابدہی کے بارے میں غور کرنا چاہیے.

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے