بسم اللہ الرحمن الرحیم.
*The Unsung Hero*
لائق اعتراف و پذیرائی شخصیت
(معمار صوبائی جمعیت اہل حدیث مہاراشٹر)
ازقلم:۔ڈاکٹر سعید احمد فیضی
( امیر صوبائی جمعیت اہل حدیث مہاراشٹر)
کسی بھی تنظیم کو متحرک کرنے اور اس کے پیغام کو قریہ قریہ عام کرنے اور تنظیم کی شاخیں قائم کرنے والے ایسے افراد ہوتے ہیں جو کہ اخلاص کے ساتھ کسی عہدے کی اور نام و نمود کی تمنا کئے بغیر صرف اللہ کیلئے ہر طرح کی قربانی دے کر اسے پروان چڑھاتے ہیں۔
وہ اس بات سے بے پرواہ ہوتے ہیں کہ کوئی ان کی پذیرائی کررہا ہے یا نہیں؟
مولانا فضل الرحمن محمدی رحمہ اللہ کی بھی ایسی ہی نابغہ روزگار شخصیت تھی کہ جنہوں نے 1980کی دہائی کے اوآخر سے آج تک یعنی تیس برسوں سے زیادہ صوبائی جمعیت اہل حدیث مہاراشٹر کے ایک ادنی اور مستعد خادم کی حیثیت سے اعلائے کلمۃ اللہ کے اپنے فرض اور اپنے علم کا حق ادا کیا۔
صو بہ مہاراشٹر میں اہل حدیث مدارس نہ ہونے پر علمائے اہل حدیث کا قحط الرجال تھا۔اور جماعت کی حالت بڑی دگرگوں تھی۔ غیور اہل حدیث اپنی اپنی جگہوں پر اپنی سی کوشش کرتےرہے ۔والد محترم سیٹھ محمد خلیل رحمہ اللہ بھی دیگر اعیان جماعت کے ساتھ بڑی کوششیں کی۔
صوبائی جمعیت اہل حدیث مہاراشٹر قائم کی گئی اور وقتاً فوقتاً آل مہاراشٹر میٹنگیں بھی ہوتی رہیں اور صوبائی سطح کے اجلاس بھی ہوتے رہے. لیکن جماعت پر ایک جمود طاری رہا. جماعت کو متحرک کرنے کی کوششیں اتنی بارآور نہیں ہوئیں جیسا کہ ہمارےاکابر چاہتے تھے.
اتر پردیش سے نقل مکانی کرکے آئے ہوئے علماءنے اپنےذاتی کاروبار سے منسلک ہوکر اپنے آپ کو صرف مقامی مساجد میں خطبۂ جمعہ تک محدود کرلیا تھا۔ والد محترم کے زمانے میں اور ان کے بعد کے کچھ برسوں تک فیضی عبدالقیوم صاحب نے بڑی محنت اور مشکل اسفار کی صعوبتیں برداشت کرکے جو چند جماعتیں تھیں انہیں رابطے میں رکھنے کا کام انجام دیا۔ اور بلامعاوضہ اپنی خدمات کو فرض عین سمجھتے ہوئے ادا کیا۔
جامعہ محمدیہ منصورہ سے فراغت کے بعد مولانا فضل الرحمن محمد ی رحمہ اللہ جماعت سے منسلک ہوئے اور زائد از تیس سال انہوں نے اخلاص سے اور ہر طرح کی قربانی دے کر جماعت کو متحرک کرنے کا کارنامہ انجام دیا۔ اوریہ موقع ہیکہ ان کی ہمہ جہت کارکردگی کا تذکرہ کرکے تاریخ کے اوراق میں محفوظ کردیا جائے کہ ان کے حاسدین اور مخالفین بھی کچھ کم نہ تھے کہ جو ان کی محنتوں کو اپنی جھولی میں ڈالنے میں ذرا بھی اللہ کا ڈر نہیں محسوس کرتے تھے۔
1۔خطبات جمعہ:
شاذ و نادر ہی خطبۂ جمعہ دینے سے محروم رہتے تھے۔ وگرنہ مالیگاؤں اور مہاراشٹر کی بیشتر مساجد اہل حدیث میں خطبۂ جمعہ کیلئے لمبے لمبے سفر کی صعوبتیں بخوشی برداشت کرکے اپنے فرض کو ادا کرتے تھے۔ کہ جماعت میں بیداری پیدا ہو۔ اور ساتھ ہی ساتھ جماعت کے حالات اور جماعت کی تنظیم کے مسائل پر گفتگو کرکے انہیں حل کرنے کی کوشش کرتے تھے۔
2۔دعوتی و تبلیغی اسفار:
صوبائی جمعیت اہل حدیث مہاراشٹر کی شاید ہی کوئی اکائی اور جمعیت ہو جہاں وہ بغرض خطبۂ جمعہ اور جمعیت کی تنظیم کیلئے سفر نہ کیا ہو۔ اور ان کے یہاں اجلاس اور پروگرام کرنے میں ان کی رہنمائی نہ کی ہو۔ جب کہ ان کے شروعات کے دنوں میں آج کل کے جیسے سفر کی سہولتیں میسر نہ تھیں۔
3۔مقامی جمعیات کے انتخاب کو کامیابی سے ہمکنار کرنا اور صوبائی مجلس شوریٰ کے قیام میں ان کی رہنمائی کرنااور صوبائی انتخابی میٹنگ کا انعقاد کرنا۔
4۔صوبائی سطح کے اجلاس اور کانفرنسوں کا انعقاد کرنا اور اس کیلئے پورے صوبے کا دورہ کرکے لوگوں میں جوش پیدا کرنا۔ عوام اور علمائے کرام کی حاضری کو یقینی بنانا ۔ پوسٹر س وغیرہ اور خصوصی دعوت نامے پورے مہاراشٹر میں روانہ کرنا اراکین شوریٰ اور جماعت کی مقتدر شخصیات سے رابطہ میں رہنا۔اسٹیج Managementاور علماء کی ترتیب کا نظم کرنا۔بعدۂ اجلاس کی رپورٹ تیار کرنا اور اخبارات میں عام کرنا۔
5۔منہج سلف کی ترویج واشاعت کےلئے پندرہ روزہ اخبار اسلاف میں ایڈیٹر رہے۔
6۔فقہی مسائل کے حل کےلئے مجلس علماءاہل حدیث کاقیام کیاگیااور ڈاکٹر فضل الرحمن مدنی پہلے صدر اور مولانا فضل الرحمن محمدی پہلے ناظم منتخب کئے گئے۔
7۔ائمہ اور دعا ۃکیلئے تربیتی پروگرام کا انعقاد کرنا۔
8۔دارالقضاء کیلئے میٹنگ کاانعقاد کرنا۔
9۔آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کی شوریٰ کی میٹنگوں میں جماعت کی نمائندگی کرنا۔
10۔کل جماعتی تنظیم مالیگاؤں کی سرگرمیوں میں مشغول رہنا اور اس کیلئے ترجمان اورStatesman کی ذمہ داری نبھانا ۔ بم بلاسٹ میں پھنسائے گئے اشخاص کی مدد کیلئے کل جماعتی وفود میں شریک رہنا۔علاوہ دیگر ملی تنظیموں کے پروگرام میں جماعت کی نمائندگی کرنا۔
11۔تفسیر احسن البیان اردو سے مراٹھی ترجمہ میں میرے(ڈاکٹر سعید احمد فیضی)اور رشید پٹھان سر کے ساتھ کم وبیش تین سال تک باقاعدگی سے اس کی جانچ اور تصحیح کا کام انجام دینا۔
12۔مہاراشٹر کی مقامی جمعیات کے پروگرامس کی ترتیب اور انعقاد، گائیڈنس اور بذات خود شریک ہوکر کامیابی سے ہمکنار کرنا۔ اور مہاراشٹر کے باہر کے پروگروموں میں بھی نمائندگی کرنا۔
13۔دہلی میں منعقدہ پروگرام ۔خاص طور سے تدریب کے پروگرامس میں شرکت اور بعض اوقات نظامت کے فرائض انجام دینا۔
14۔مصیبت اور آفات کے ہنگامی مواقع پر مہاراشٹر سے ریلیف جمع کرنے کی مہم انجام دینا اور ریلیف متاثرہ علاقوں تک پہنچانا۔
15۔ملک بھر سے آنے والےمدارس و مساجدکے سفراء کیلئے توصیات جاری کرنا۔
16۔بیت المال کے فنڈ کیلئے مہاراشٹر میں ماہ رمضان میں دورے کرنا ۔
اور کیا کیا یاد کیاجائے۔ اورکیاکیا لکھا جائے۔ ان کی پوری جماعتی زندگی ایثار و قربانی سے عبارت ہے۔ اور انہیں جماعت اہل حدیث کا معمار ناکہا جائے تو یہ ان کے حق میں ناانصافی ہوگی یہ ضرور ہے کہ دیگر ارکان جماعت و نوجوانانِ اہل حدیث ان کے شانہ بشانہ رہے اور انہیں سیٹھ محمد خلیل فیضی خاندان کی سرپرستی حاصل رہی۔
ان کو جماعت میں ایک عزت اور ایک مقام حاصل تھا۔ پوری جماعت اہل حدیث مہاراشٹر ان سے واقف ہے۔ مگر جہاں اتنی محنت اور کام ہوتا ہے ثمر آور درخت پر پتھرمارنے والےبھی رہتے ہی ہیں۔ میں نے جوسرخی لگائی ہے The Unsung Heroکہ وہ ان پر صادق آتی ہے کہ ان حاسدین ِ خوش نوا کی بد خواہی نے بہت سے اہل حدیث افراد کو ان سے بدظن کئے رکھا۔اور ان کی خدمات کاوہ اعتراف نہیں ہوا ۔اوروہ پذیرائی نہیں ہوئی جوکہ ان کا حق تھا۔ یہ اللہ تعالیٰ کا انعام ان کیلئے رہا کہ انہیں صوبائی جمعیت اہل حدیث مہاراشٹر کے ناظم اعلیٰ کا عہدہ ملا۔ شروع دنوں کےپریشان کن حالات کے بعد عام اہل حدیث عوام کو حقائق کا پتہ چلا۔ اور جمعیت پھر سے متحد ہوکر اپنی نشاطات کی طرف سرگرم ہوگئی۔ مگر یہ اللہ کی مشیت ہےکہ مولانا فضل الرحمن محمدی رحمہ اللہ ہم سے جدا ہوگئے اور ہم ایک ایسے امتحان میں ڈال دیئے گئے کہ مولانا فضل الرحمن محمدی رحمہ اللہ کے نقش قدم پر چل کر جماعت کو صحیح راہ پر لگاکر اپنے فرائض امرونواہی کو ادا کرتے رہیں۔
میری اور مولانا فضل الرحمن محمدی رحمہ اللہ کی تقریباً روز ہی ملاقات اور جماعت کے تعلق سے بات چیت رہتی تھی. وہ جیسے میرے گھر کے ایک فرد تھے. جماعت کے کاموں میں وہ میرا داہنا ہاتھ تھے. اپنے فرض کے تئیں انہوں نے کبھی بھی، دن رات سردی گرمی بارش کی پرواہ نہیں کی اور اپنی دیگر مصروفیات پر جماعتی کاموں کو مقدم رکھتے تھے. یہ میرے لئے اور جماعت کے لئے ایک بہت ہی صبر آزما اور امتحان کا وقت ہے کہ اب مستقبل میں ہم
*"ایسا کہاں سے لائیں کہ ان سا کہیں جسے"*
اللہ تعالٰی سے دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان کا نعم البدل عطاء فرمائے آمین
اللہ تعالیٰ غفور الرحیم سے دعا ہے کہ ان کی سئیات کوحسنات سے بدل دے اور ان کے حسنات کو قبولیت عطا فرما کر ان کیلئے ذخیرہ آخرت بنائے۔اللہ تعالیٰ انہیں عذاب القبر سے بچائے ۔عذاب النار سے بچائے انہیں انبیاء صدیقین ،شہدا اور صالحین کے ساتھ جمع کرے۔ ان کے ورثہ کو صبر جمیل عطا فرمائے اور انہیں بھی ان کی طرح دین کا کام ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اور دین و دنیا میں کامیابی و کامرانی عطا فرمائے ۔
اور آخر میں یہ کہ ان کے ساتھ کام کرنے میں ان سے معاملات میں ہماری کوتاہیوں کو معاف فرمائے(آمین)
شعبہ نشراوشاعت
دفتر:اہل حدیث منزل گولڈن نگر، مالیگاؤں
0 تبصرے
bebaakweekly.blogspot.com