ناسک ضلع پریشد میں کروڑوں کی بدعنوانی کی جانچ کی جائے ، ایجنٹ گری عروج پر، افسران کی تانا شاہی سے اساتذہ پریشان
بیک ڈیٹیڈ پروپوزل کو منظور کروا کر بڑے پیمانے پر کرپشن کیا جارہا ہے، برسوں سے اسکولوں میں پڑھانے والے اساتذہ کے ساتھ نا انصافی
وزیر تعلیم دادا بھسے کو سنجیدگی سے نوٹس لیکر ایسا کام کرنا چاہیے کہ پوری ریاست میں دادا بھسے کے کام کی سراہنا ہوسکے
ناسک : 3 جنوری (نمائندہ خصوصی) محکمہ تعلیم میں ہر طرف دلالوں کا راج ہے اور چھوٹے موٹے کام بھی تاخیر کا شکار ہو رہے ہیں۔ ناسک محکمہ تعلیم کے ڈپٹی ڈائریکٹر کے طور پر ڈاکٹر۔ بی۔ بی۔ چوہان انتظامیہ میں ایک بہترین افسر ہیں۔ اتنے اچھے افسر کی طرف سے دیے گئے احکامات کو نیچے کے کچھ افسران نہیں مانتے۔اس کا مطلب یہ دکھانا ہے کہ یہ حکم کسی کی رضامندی سے نہیں مانا جاتا۔ کئی تجاویز کو بوگس بنایا جا رہا ہے اور بیک ڈیٹیڈ پروپوزل کو منظور کروا کر بڑے پیمانے پر کرپشن کیا جارہا ہے۔برسوں سے اسکولوں میں پڑھانے والے اساتذہ 20 اور چالیس فیصد گرانٹ پر کام کررہے ہیں لیکن اسی اسکول میں بیک ڈیٹیڈ سیٹ لگا کر اپنے رشتے داروں کو انتظامیہ ایجنٹ کی مدد سے بھر رہی ہیں اور سرکار سے بیک ڈیٹیڈ بل کے نام پر کروڑوں روپے وصول کیا جارہا ہے اور اصل حق داروں کے ساتھ نا انصافی ہورہی ہیں ۔سپرنٹنڈنٹ آف پے ایک الگ افسر ہے اور کسی کی بات سننے کے موڈ میں نہیں ہے۔ وہ اپنی مرضی کے مطابق اپنا کام من مانی سے کرتے ہیں۔ کئی بار وہ آفس سے غیر حاضر رہتے ہیں۔
تدریسی و غیر تدریسی عملہ کی زیادہ تر شکایات محکمہ پے اسکیل سے متعلق ہیں۔ اساتذہ کا کہنا ہے کہ ڈپٹی ایجوکیشن آفیسر، ایڈمنسٹریشن آفیسر، اکاؤنٹس آفیسر سب قانون کو طاق پر رکھ کر اپنی مرضی کے مطابق کام کر رہے ہیں۔ اکثر اوقات یہ افسران عدالت کے احکامات کی خلاف ورزی کرتے ہوئے خود عدالت کے کاموں میں زیادہ جاتے نظر آتے ہیں۔
محکمہ تعلیم میں ایسی مثالیں موجود ہیں جہاں گزشتہ 22 سالوں سے چلنے والے اسکولوں کو ان کی صوابدید پر اپنے اختیار کے تحت اسکول آئی ڈی سے ہٹا دیا گیا ہے۔ تاہم ان کے پاس اس بات کا کوئی جواب نہیں ہے کہ یہ طریقہ کار کس کے حکم پر کیا گیا۔ ایک معاملے میں، انکوائری کمیٹی کے کارروائی کرنے اور انسٹی ٹیوٹ کی جانب سے مناسب تجویز پیش کرنے کے بعد بھی پے سپرنٹنڈنٹ خط میں کیوری دکھا کر پرنسپل کی تنخواہ کی ادائیگی میں تاخیر کرتا ہے۔ وہیں ایجوکیشن آفیسر کا کہنا ہے کہ لیٹر کی ضرورت نہیں، اس کا کیا مطلب ہے؟ تنخواہ لینے کے لیے جان بوجھ کر ہراساں کیوں کیا جا رہا ہے جب کہ ادارے نے پرنسپل کو باقاعدہ ملازمت میں رکھا ہوا ہے اور وہ عدالت کے فیصلے کا پابند ہے۔ سینئر پے سکیل، سلیکشن سکیل، فرق کے بل دو سال سے جاری نہیں ہوتے۔ کلرکوں کو اکثر منظوری کے لیے روپے پیسوں کے مطالبات کرنے کے لیے کہا جاتا ہے۔ عوامی نمائندوں کی طرف سے دی گئی تجاویز کی قدر نہیں کی جاتی۔
ایسی کئی شکایات اساتذہ اور غیر تدریسی عملے کی جانب سے کی گئی ہیں۔ اساتذہ نے شکایت کی ہے کہ حکام نے محکمہ تعلیم میں اس کام کے لیے کچھ دلالوں کو تعینات کیا ہے۔ ریٹائرڈ ملازمین کے پراویڈنٹ فنڈ کی رقم کئی دنوں سے ادا نہیں کی جاتی ہے۔ ان کے فرق کے بل وقت پر ادا نہیں کیے جاتے۔انوکمپا جیسی اسکیم میں، ایسے ملازمین کو تسلیم نہیں کیا جاتا جو قواعد کے مطابق ہوں۔یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ محکمہ اسکول ایجوکیشن روپے کے ڈیمانڈ کے بغیر کوئی کام کرنے سے قاصر ہے، وزیر تعلیم ان معاملات کا سنجیدگی سے نوٹس لیں اور اس پر سخت ایکشن لیں۔ دادا بھسے پہلے سے ہی اپنے کام کی وجہ سے ضلع میں مشہور ہیں اور اب تو وزیر تعلیم بن گئے ہیں ۔اب انہیں پورے مہاراشٹر کو دکھانا چاہیے کہ وزیر تعلیم کیسا ہونا چاہیے۔ کچھ افسران گزشتہ کئی سالوں سے ناسک ضلع میں خدمات انجام دے رہے ہیں اور انہوں نے یہاں ایک بہت بڑی سلطنت بنا رکھی ہے۔ اساتذہ کی بھی رائے ہے کہ انہیں یہاں سے نکال دیا جائے۔لاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں روپے کے خرد برد کی گونج یونہی نہیں سنائی دے رہی ہیں ۔برسوں ایک جگہ پر کام کا کیا مقصد ہے؟ اس کی بھی تحقیقات ہونی چاہیے۔ اساتذہ میں یہ بات چل رہی ہے کہ اگر ان کا تبادلہ رتناگیری، گڈچرولی جیسے علاقوں میں کر دیا جائے تو انہیں وہاں سروس کا تجربہ بھی حاصل ہو گا۔ کچھ افسران کو باری باری وزارت سے کچھ احکامات ملتے ہیں۔اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے افسران اساتذہ اور غیر تدریسی عملہ کو ہراساں کرتے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ وہ اسے اپنی پروموشن کے لیے غلط استعمال کرتے ہیں۔ اساتذہ کا کہنا ہے کہ یہ پریکٹس پہلے کی طرح چل رہی ہے جب سپرنٹنڈنٹ جعلی دستخطوں سے دفتر چلاتے تھے۔ اس محکمے میں وزیر کے جھوٹے دستخط شدہ لیٹر لا کر عہدہ لینے کا یہ معاملہ ہوا ہے۔ اسے سنجیدگی سے لیتے ہوئے اگر ایسا کچھ ہوا ہے تو اس کے خلاف بھی سخت کارروائی ہونی چاہیے۔
یہاں کے بعض عہدیداروں کی جائیداد کی چھان بین کرنے سے کئی بددیانتی و گھپلوں کا انکشاف ہوگا۔ دیکھنے میں آیا ہے کہ یہاں کے اہلکار نچلے ملازم کی غلطی کو دکھا کر اپنا رخ ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ایسی بہت سی چیزوں کی وجہ سے ناسک ڈویژن کا محکمہ تعلیم بدنام ہوا ہے، وزیر تعلیم کو اس پر سخت ایکشن لینا چاہئے اور ناسک ڈویژن کو مہاراشٹر کو ایک بہترین محکمہ تعلیم کے طور پر دکھانا چاہئے۔ محکمہ کے بہت سے ملازمین اپنے کام کے لیے دور دور سے آتے ہیں۔ اکثر آفیسر اساتذۂ کرام سے ملاقات نہیں کرتے،ٹیچر اپنا وقت اور پیسہ ضائع کرتے ہیں اور ملازمین پریشان رہتے ہیں۔ یہ سب اچھا نہیں ہے۔ کسی مسئلہ کے بارے میں صحیح طور پر معلومات نہیں دی جاتی ۔بہت ساری پروپوزل کو مسترد کر دیا جاتا ہے کیونکہ جمع کرانے کے مہینوں بعد پروپوزل میں ہوئی غلطیوں کی اطلاع نہیں دی جاتی ہے۔ غلطی کو درست کرنے کے بعد بھی کچھ نہ کچھ دکھا کر مسترد کر دیا جاتا ہے۔ ایسی شکایات بھی سامنے آئی ہیں کہ اکاؤنٹس آفیسر روپے پیسوں کے مطالبات کے بغیر پروپوزل نہیں دیتے جس سے محکمہ تعلیم کے کئی ملازمین پریشان ہیں۔ راساتذہ نے شکایت کی ہے کہ بہت سی تجاویز میں خامیاں ہیں اور یہاں کا عملہ دلالوں کو غلطیاں بتارہا ہے اور ان کے نام بتا کر ان سے پروپوزل حاصل کرنے کا کہہ رہا ہے۔ اساتذہ کا کہنا ہے کہ اگر ایسا استاد شکایت کرے گا تو ان کے سکول کو مزید نقصان پہنچے گا اور اس ٹیچر کے کام کو جان بوجھ کر ٹال دیا جا رہا ہے۔ اس لیے کئی اساتذہ، غیر تدریسی عملہ پریشانی کا شکار ہیں۔ اساتذہ کا کہنا ہے کہ اس کے لیے وزیر تعلیم کو چاہیے کہ وہ وزارت کی سطح پر ایک الگ ٹیم مقرر کریں اور ان معاملات کا نوٹس لیں۔ ایکریڈیٹیشن کی تجویز منظور ہونے کے بعد اساتذہ کو اپروول کے لیے برسوں انتظار کرنا پڑتا ہے۔ اس کی شرائط پوری کرکے ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہونے کی بہت سی مثالیں موجود ہیں۔ اگر کسی استاد کو دیہی علاقے سے شہر منتقل کیا جاتا ہے تو اس کی تنخواہ دیہی علاقے کے اسکول سے لی جاتی ہے اور دیہی ملازم کی تنخواہ شہر کے اسکول سے لی جاتی ہے۔
خاص بات یہ ہے کہ اس سے حکومت کا کوئی نقصان نہیں ہے بلکہ یہ مالیاتی لین دین کے لیے کیا جا رہا ہے اور عوامی نمائندے کا نام بدنام کیا جا رہا ہے تاہم وزیر تعلیم ان تمام معاملات کا نوٹس لیں اور جاننے کے لیے ضلع وائز اجلاس منعقد کریں۔ اساتذہ کی شکایات میں نے اصل میں وزیر سے ملاقات کی ہے۔ ڈسٹرکٹ ٹیچر کوآرڈینیشن کمیٹی نے بتایا ہے کہ اگر اس طرح کا اجلاس منعقد کیا گیا تو کئی معاملات سامنے آئیں گے۔
(از قلم : کے کے آہیرے)
0 تبصرے
bebaakweekly.blogspot.com