کارپوریشن چناؤ کی تیاری کی جائے ، حکمراں جماعت کے ایم ایل ایز و لیڈران کو ہدایات کارپوریشن چناؤ پر سپریم کورٹ میں جلد فیصلہ کا امکان



کارپوریشن چناؤ کی تیاری کی جائے ، حکمراں جماعت کے ایم ایل ایز و لیڈران کو ہدایات 


 کارپوریشن چناؤ پر سپریم کورٹ میں جلد فیصلہ کا امکان ، چناؤ نہ ہونے سے عوامی و بنیادی مسائل میں اضافہ


 ایڈمنسٹریٹر کی کارکردگی و سرکار کی پالیسی سے عوام ناراض ، ایک ماہ میں انتخابات کے شیڈول کا اعلان بھی ممکن 


 


ناسک : 13 ستمبر (بیباک نیوز اپڈیٹ) لوک سبھا انتخابات میں ابھی چند ماہ باقی ہیں۔ ساتھ ہی، توقع ہے کہ ریاست میں رکے ہوئے بلدیاتی انتخابات کے شیڈول کا بھی جلد اعلان کر دیا جائے گا۔ دیوالی کے بعد یہ انتخابات نومبر-دسمبر کے درمیان ہو سکتے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق سپریم کورٹ میں بلدیاتی اداروں کے حوالے سے ہونے والی سماعت پر ایک ماہ میں حتمی فیصلہ سنایا جائے گا۔دوسری طرف، ریاستی حکومت کی طرف سے حکمراں ایم ایل ایز کو اپنے حلقہ انتخابات میں تیاری کرنے کی ہدایات دی گئی ہیں۔ اس سلسلے میں ناسک ضلع کے کچھ ایم ایل ایز نے اس بات کی تصدیق کی۔

بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے کئی دنوں سے ’تاریخ پے تاریخ‘ کا سلسلہ جاری ہے۔ گزشتہ نو ماہ سے سپریم کورٹ میں اس معاملے کی کوئی سماعت نہیں ہوئی ہے۔سپریم کورٹ میں ہونے والی یکم ستمبر کی سماعت بھی ملتوی کر دی گئی۔ ادھو ٹھاکرے کی سربراہی میں قائم مہاوکاس اگھاڑی حکومت نے ممبئی میونسپل کارپوریشن کے وارڈ ڈھانچے میں تبدیلی کی تھی ۔ تاہم، جیسے ہی وزیر اعلیٰ ایکناتھ شندے کی حکومت اقتدار میں آئی، اس نے ماضی کی طرح کوئی تبدیلی کیے بغیر اسے 'جیسے تھا' برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا۔ شندے گروپ کا یہ فیصلہ سپریم کورٹ  میں چیلنج کیا گیا۔سپریم کورٹ اس بارے میں گزشتہ سال سے سماعت کر رہی ہے۔

سیاسی و حکومتی گلیاروں میں جاری ہلچل کے بیچ موصول تفصیلات کے مطابق پوری ریاست کی توجہ بلدیاتی انتخابات پر مرکوز ہے ۔ ریاست کی 14 میونسپل کارپوریشنوں، 25 ضلع پریشدوں اور 207 میونسپلٹیوں، پنچایت سمیتیوں کی قسمت سپریم کورٹ کے فیصلے پر منحصر ہے ۔ اس کے علاوہ 92 میونسپل کونسلوں میں او بی سی سیاسی ریزرویشن کا معاملہ ابھی تک زیر التوا ہے۔ اس لیے یہ سماعت سیاسی طور پر بہت اہم ہے۔ او بی سی ریزرویشن اور بلدیاتی اداروں کے زیر التوا انتخابات سے متعلق سپریم کورٹ میں کئی ماہ سے سماعت جاری ہے۔ حکمراں پارٹی اور اپوزیشن دونوں کا کہنا ہے کہ او بی سی ریزرویشن کے بغیر انتخابات نہیں ہونے چاہئے۔ اس کے لیے سپریم کورٹ میں درخواستیں دائر کر دی گئی ہیں۔
دوسری جانب بلدیاتی انتخابات میں مسلسل تاخیر کی وجہ سے سیاسی ورکروں اور لیڈران میں بے چینی  اور برہمی کا عالم ہے۔ جس کا احساس حکومت کو ہوگیا ہے۔کئی میونسپل کارپوریشنوں کی میعاد ختم ہوئے تین چار سال ہوچکے ہیں۔ اس لیے اس بات کی نشاندہی کی جا رہی ہے کہ انتظامی نظام کی وجہ سے کام متاثر ہو رہا ہے۔ اس لیے کہا جارہا ہے کہ حکومت نے اپنے ایم ایل ایز اور لیڈران کو ہدایات دی ہیں کہ وہ کارپوریشن چناؤ کیلئے اپنے اپنے علاقوں میں سرگرم ہوجائیں ۔



 انتخابات میں تاخیر کی وجہ 

سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد او بی سی کے لیے سیاسی ریزرویشن کا راستہ صاف ہوگیا۔ تاہم اس سے قبل چونکہ 92 میونسپل کونسلوں کے انتخابات کا اعلان کیا گیا تھا، بہت سے لوگوں نے اس پر اعتراض کیا۔ 92 میونسپل کونسلوں کے معاملے میں سپریم کورٹ میں ایک عرضی دائر کی گئی تھی جس میں مطالبہ کیا گیا تھا کہ اس ریزرویشن کو انتخابات میں بھی لاگو کیا جائے۔ اس کے علاوہ شندے حکومت نے مہاوکاس اگھاڑی کے دوران بنائے گئے وارڈ ڈھانچے کو تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ اس نئے وارڈر ڈھانچے کو سپریم کورٹ میں بھی چیلنج کیا گیا تھا۔ ان دو چیزوں کی وجہ سے بلدیاتی انتخابات قانونی دلدل میں پھنس گئے ہیں۔


ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے