مالیگاؤں کے سات شہیدوں کو خراج عقیدت پیش کرنے شہیدوں کی یادگار کے پاس 24 جنوری کو اشوک استھمب کا افتتاح، 26 جنوری کو پرچم کشائی
شہیدوں کی یادگار پر شہدائے مالیگاؤں کا نام نہیں لکھا گیا تو پھر کورٹ کا راستہ اپنایا جائے گا : مستقیم ڈگنیٹی
مالیگاؤں فریڈم فائٹر انصاف کمیٹی کا قیام، پریس کانفرنس سے مخاطبت
مالیگاؤں : 23 جنوری (بیباک نیوز اپڈیٹ ) شہیدوں کی یادگار پر قانونی طور مسلم شہداء کا نام درج نہیں کیا گیا تو ہم کورٹ کا سے انصاف لیکر شہیدوں کا نام لکھوائیں گے ۔بغیر کسی سیاسی و مذہبی تنازعہ کے ہم بھائی چارہ سے نام لکھوانے کی کوشش کریں گے ۔اسطرح کا اظہار آج اردو میڈیا سینٹر میں منعقدہ پریس کانفرنس سے محمد مستقیم ڈگنٹی نے کیا ۔موصوف نے مالیگاؤں فریڈم فائٹر انصاف کمیٹی کے زیر اہتمام اس لڑائی کو لڑنے کا اعلان کیا اور کہا کہ اگر کسی سیاسی جماعت ہماری مدد کرنا چاہتی ہے تو ہم انکی مدد لیکر شہیدوں کا نام لکھوائیں گے ۔اس پریس کانفرنس میں شاکر سر نے تفصیلی معلومات فراہم کرتے ہوئے بتایا کہ چند ماہ قبل شہر کے مختلف مکاتب فکر کے سرکردہ افراد کو لے کر مالیگاؤں فریڈم فائٹر انصاف کمیٹی کا قیام عمل میں لایا گیا۔متفقہ طور پر اس کمیٹی کی کنوینر شپ محمد مستقیم ڈِگنیٹی کو سونپی گئی. اس کمیٹی کے قیام کا مقصد یہ ہے کہ جنگ آزادی میں شہر کے جن سات شہیدوں نے دیش پر اپنی جان قربان کیں، ان کے نام سے معنون شہیدوں کی یادگار پر ساتوں شہدائے آزادی کے نام کندہ کروائے جائیں. جان بوجھ کر کمیٹی کی تشہیر سے قبل شہیدانِ آزادی کے نام لکھوانے میں حائل دشواریوں کو دور کرنے کیلئے ضروری اقدام کو ترجیح دی گئی. اب جبکہ مالیگاؤں کارپوریشن، پولیس محکمہ، کلکٹر آفس سے لے کر ممبئی منترالیہ تک کمیٹی کے ممبران نے کچھ حد تک رکاوٹوں کو دور کر لیا ہے اور کمیٹی کا صاف موقف ہے کہ موہن ٹاکیز کے پیچھے سرکاری طور تعمیر اور اے ٹی ٹی ہائی اسکول کے پاس قدوائی روڈ پر واقع شہیدوں کی یادگار پر، 2022 جب ان شہادتوں کو سو سال مکمل ہونے جا رہے ہیں، مالیگاؤں کے سات شہیدوں کے نام شہیدوں کی یادگار پر صد سالہ جشن کے موقع پر کندہ ہو جائیں۔
اس معاملے کو انتظامیہ کی جانب سے جان بوجھ ہندو بنام مسلم بنایا جاتا رہا ہے جبکہ ایسا بالکل بھی نہیں ہے. جنگ آزادی کے دوران جس واقعے کی بنیاد پر مالیگاؤں کے سات جیالے شہید ہوئے، ان کی اس تحریک میں سبھی مذاہب کے افراد ساتھ تھے۔ یہاں تک کہ کچھ ہندو مجاہدین آزادی کو اُس وقت گولیاں بھی لگیں، کئی افراد گرفتار بھی کئے گئے. ان سبھی کا ذکر مذکورہ ساتوں شہداء کے نام کے ساتھ 10 اکتوبر 1969 میں پارلیمنٹ کے ذریعے منظور کردہ WHO IS WHO OF INDIAN MARTYRS نامی کتاب کی پہلی ہی جلد میں موجود ہے. اس کتاب کی کل سات جلدیں حکومتِ ہند کی جانب سے شائع کی گئیں اور مالیگاؤں شہر کیلئے یہ فخر کی بات ہے کہ اس کتاب کی پہلی ہی جلد کے پہلے ہی صفحے پر مالیگاؤں کے شہید عبدالغفور محمد کا نام درج ہے. اسی طرح عبداللہ خلیفہ کا نام تیسرے صفحے پر، بُدّھو فریدَن کا نام اَٹّھاوَنویں صفحے پر، اسرائیل اللہ رکّھا کا نام ایک سو بیالیسویں صفحے پر، محمد حسین حاجی مَدّو اور محمد شعبان بھکاری کے نام دو سو اٹّھائیسویں صفحے پر اور سلیمان شاہ روزَن شاہ کا نام تین سو اڑتالیسویں صفحے پر موجود ہے. حکومتِ ہند کی اس سب معتبر کتاب میں مالیگاؤں کے سات شہیدوں کا صاف طور پر ذکر ہونے کے باوجود شہیدوں کی یادگار پر ان کے نام لکھنے نہ دینا ان شہداء اور حُب الوطنی کا جذبہ رکھنے والے شہریان مالیگاؤں کے ساتھ سراسر زیادتی ہے.
ریاستی حکومت کی جانب سے شائع کردہ کتاب
स्वतंत्र सैनिक चरित्र कोश, महाराष्ट्र राज्य
کی بھی پہلی ہی جلد میں ان سات شہداء کا ذکر ہے. مہاراشٹر کے جن شہروں یا گاؤں میں شہیدوں کی یادگار تعمیر کی گئی ہیں وہ اسی کتاب کی بنیاد پر تعمیر کی گئی ہیں. اسی لئے مالیگاؤں شہر میں بھی موہن ٹاکیز کے پیچھے سرکاری طور شہیدوں کی یادگار تعمیر کی گئی ہے مگر جن شہیدوں کی وجہ سے یادگار تعمیر ہوئی، اُن کے نام لکھے نہ جانا افسوسناک ہے.
شہیدوں کی یادگار پر شہدائے مالیگاؤں کے نام لکھنے کی ایک کڑی کے طور پر کارپوریٹر مستقیم ڈِگنیٹی نے تاریخی قلعے کے اندر ہونے والی مہا سبھا کی میٹنگ میں ان شہداء کو خراجِ عقیدت کی تجویز پیش کی جسے کسی بھی سیاسی پارٹی نے مخالفت کئے بغیر منظور کرتے ہوئے سات شہداء کو خراجِ عقیدت پیش کیا. اس کا باقاعدہ ٹھہراؤ بھی منظور کیا گیا اور اسی بات سے ہمیں یہ احساس ہوا کہ شہیدوں کی یادگار پر سات شہیدوں کے نام لکھ دیا جانا چاہیئے. شہیدوں کے نام پر جب کسی سیاسی پارٹی کو اعتراض نہیں ہے تو آپسی بھائی چارگی کے ذریعے دونوں یادگاروں پر شہدائے مالیگاؤں کے نام لکھ دیئے جائیں.
جیسا کہ مالیگاؤں کے شہداء کے تعلق سے کچھ فرقہ پرست یہ الزام عائد کرتے ہیں کہ وہ فسادی اور دہشت گرد تھے. یہ الزام تحریکِ آزادی کے متوالوں کی ہتک ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ انگریزوں کی حکومت میں ان کے خلاف جنگ آزادی لڑنے والے بیشتر جیالوں کے خلاف انگریزی حکومت نے اپنے قانون کے مطابق غداری کا مقدمہ درج کیا. یہ الزام انگریزی حکومت نے مالیگاؤں کے مجاہدین آزادی کے ساتھ ساتھ ملک بھر کے ہزاروں لوگوں پر عائد کیا یہاں تک کہ مصلح تحریک آزادی کے علمبردار بَھگَت سنگھ اور اشفاق اللہ خان پر بھی غداری کا مقدمہ درج کیا گیا اور اسی کی مناسبت سے انہیں بھی پھانسی دی گئی. انگریزی حکومت کے ذریعے عائد کئے گئے الزام کو آزاد بھارت میں بھی غداری سے منسوب کرنا مالیگاؤں کے شہداء کی توہین ہے.
مالیگاؤں فریڈم فائٹر انصاف کمیٹی نے اس معاملے سے جُڑے تقریباً تمام کاغذات اکٹھا کر لئے ہیں. منترالیہ کے ذریعے نام لکھنے پر جو اسٹے لگایا گیا ہے اگر وہ اسٹے ہٹایا نہیں گیا تو مالیگاؤں فریڈم فائٹر انصاف کمیٹی ہائی کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹانے کیلئے بھی کمر بستہ ہے. کمیٹی پُر امید ہے کہ سات شہدائے آزادی کے نام شہیدوں کی یادگار پر درج کرنے میں کامیابی ضرور ملے گی.
یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ قدوائی روڈ پر شہیدوں کی یادگار سے متصل کارپوریٹر مستقیم ڈِگنیٹی کے فنڈ سے جو عمارت تعمیر کی جارہی ہے، اس پر سات شہیدوں کے نام لکھنے کا کمیٹی کا منشاء نہیں ہے. کمیٹی کا اصل مقصد موہن ٹاکیز کے پیچھے اور قدوائی روڈ پر واقع شہیدوں کی یادگار، ان دونوں مقام پر شہدائے مالیگاؤں کے نام درج کرنا ہے. ملک کے موجودہ حالات میں جبکہ فرقہ پرست طاقتیں سیکولر دستور کو بدلنے کے درپے ہیں ایسے حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ عمارت تعمیر کی جا رہی ہے. اس عمارت پر دستور کی تمہید (عہد نامہ) کا کتبہ مراٹھی، اردو اور انگلش ان تین زبانوں میں نصب کیا جائے گا. یہ کتبہ سات فٹ کا ہوگا جو آئین کی تمہید کا ملک کا سب سے بڑا کتبہ ہوگا. اس عمارت پر اشوک استمبھ بھی نصب کیا جائے گا تاکہ شہر کی نوجوان نسل سیکولر آئین کے تئیں بیدار رہے، اس پر عمل پیرا رہے اور وقت پڑنے پر فرقہ پرست طاقتوں کا بخوبی مقابلہ کرسکے. شہیدوں کے نام درج کروانے میں بھی ہمیں دستور پر ہی اعتماد ہے اسی لئے مذکورہ مقام پر یہ عمارت بنائی جا رہی ہے. اس نو تعمیر شدہ عمارت کی افتتاحی تقریب 24 جنوری، بروز اتوار رات آٹھ بجے منعقد کی جا رہی ہے. اسی مقام پر 26 جنوری یومِ جمہوریہ کے موقع پر صبح سوا دس بجے شہر کے سب سے اونچے ستون پر رسمِ پرچم کُشائی بھی عمل میں آئے گی۔اس پریس کانفرنس میں مستقیم ڈگنیٹی، شاکر سر، اطہر حسین اشرفی، سہیل عبدالکریم، ڈاکٹر اخلاق، عبدالرحمن انصاری ،شاہد فائن، عمر فاروق الخدمت، آفتاب عالم ناگ ارجن وغیرہ شریک تھے ۔
0 تبصرے
bebaakweekly.blogspot.com