وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جو فاران و شعیر کی چوٹیوں سے جلوہ گر ہوا، وہ یتیم تو تھا مگر عُسرت زدہ اور نادار نہ تھا۔
قسط نمبر 3
تلخیص و پیشکش: رضوی سلیم شہزاد، رضا اکیڈمی مالیگاؤں۔
(افادہ: پیارے نبی کا پیارا بچپن، از منصور احمد بٹ، شائع کردہ امام احمد رضا اکیڈمی،بریلی شریف)
ربیع الاول کی بارہ تاریخ پیر کا دن اور صبح صادق کا وقت تھا کہ امین بن کر امانت حضرت آمنہ رضی اللہ عنہا کی گود میں آئی۔ وہ آئے جن کے آنے سے گلزارِ ہستی میں رونق آگئی جو صرف عرب اور عجم کے لیے ہی رحمت بن کر نہیں آئے بلکہ تمام جہانوں کے لئے رحمت بن کر آئے، جن کی آمد پژمردہ گلدستہء اخلاق کے لیے آب نیساں اور صبائے جاں فزا ثابت ہوئی۔ جو ابراہیم خلیل اللہ کی دعاؤں کا ثمرہ، اسماعیل ذبیح اللہ کی شاخِ تمنا کا گلِ تر، جو توریت کی نشانیوں کو لیے فاران و سعیر کی چوٹیوں سے جلوہ گر ہوا، جو نویدِ حضرتِ عیسی ابن مریم علیہ السلام ہیں۔
جن کی ذاتِ بابرکات انبیائے سابق کی خوبیوں کا خلاصہ ہے، جو خلقِ آدم علیہ السلام، معرفتِ شیث علیہ السلام، جراءتِ تبلیغِ نوح علیہ السلام، خلّتِ ابراہیم علیہ السلام، زبان دانیِ اسماعیل علیہ السلام، رضا جوئیِ اسحاق علیہ السلام، خطابتِ صالح علیہ السلام، حکمتِ لوط علیہ السلام، بشارتِ یعقوب علیہ السلام، حسنِ یوسف علیہ السلام، جہادِ یوشع علیہ السلام، لحنِ داؤد علیہ السلام، محبتِ دانیال علیہ السلام، شوکتِ سلیمان علیہ السلام، عظمتِ الیاس علیہ السلام، عصمتِ یحییٰ علیہ السلام اور زُہدِ عیسی علیہ السلام کا مجموعہ ہے۔
محمود پاشا فلکی کی تحقیق کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تاریخ ولادت 9 ربیع الاول کی جاتی ہے۔ البتہ یہ بات وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یومِ میلاد دوشنبہ 12 ربیع الاول ہے۔
امام ابنِ جریر طبری، علامہ ابنِ خلدون، علامہ ابن ہشام، علامہ ابوالحسن محمد بن الماوردی اور علامہ محمد رضا سب ہی اس بات پر متفق ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس عالمِ رنگ و بو میں 12 ربیع الاول کو تشریف لائے۔
*دادا عبدالمطلب نے عطائے نعمت پر اظہارِ تشکر کیا۔*
حضرت آمنہ رضی اللہ عنہا نے نویدِ ولادت دادا عبدالمطلب کو بھجوائی۔ وہ اُس وقت اپنے بیٹوں اور اشراف القریش کے ساتھ مقامِ حجرِ حطیم (وہ حصہ جو کعبہ کے شمالی جانب ہے، جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کعبہ ہی کا حصہ قرار دیا ہے) میں بیٹھے تھے۔ وہ بہت خوش خوش گھر آئے اور نومولود کو ہاتھوں میں اٹھا کر کعبۃ اللہ میں لے آئے، وہاں اس عطائے نعمت پر اللہ کا شکر ادا کیا، بچے کے لئے دعا فرمائی اور محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) نام رکھا۔
نامِ مبارک محمد اور احمد کس نے رکھا؟
حضرت ہاجرہ علیہا السلام اور حضرتِ مریم علیہا السلام کی طرح حضرتِ آمنہ رضی اللہ عنہا کو بھی اللہ تعالی نے القاء و الہام کی قوتوں سے نوازا تھا۔ ان ہی اشاروں پر مولود کا نام احمد (صلی اللہ علیہ وسلم) رکھا۔ ایک روایت یہ بھی ملتی ہے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) نام بھی آپ ہی کا رکھا ہوا ہے۔
محمّد صلی اللہ علیہ وسلم اور احمد صلی اللہ علیہ وسلم دونوں کا مادّہ "حمد" ہے اور یہ اسمِ ذاتی ہیں۔ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کے لفظی معنی "ستودہ خصال" ہیں۔ قاضی عیاض نے الشفا میں چھ اور حافظ ابنِ حجر نے فتح الباری میں پندرہ ایسے لوگوں کے نام دیے ہیں، جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کے وقت "محمد" نام کے تھے… اس کی وجہ یہ تھی کہ یہود و نصاری نے اہلِ عرب کو بتلایا تھا کہ اب آخری نبی کے ظہور کا زمانہ قریب ہے اور ان کا نام "محمد" ہوگا، وہ بنی اسماعیل میں پیدا ہوگا۔ اس لئے لوگ یہ مبارک نام رکھنے لگے تھے، ان پندرہ میں سے کچھ نے اسلام کا عہد پایا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان بھی لائے۔
قرآنِ مجید میں اللہ تعالی نے چار جگہ پر اس نام کا ذکر فرمایا ہے، البتہ اس بات کا ثبوت نہیں ملتا کہ کسی شخص کا نام اس سے پہلے احمد رکھا گیا ہو۔ حالانکہ حضرت عیسی علیہ السلام نے صاف صاف کہا تھا کہ میرے بعد ایک نبی آئے گا، جس کا نام احمد (صلی اللہ علیہ وسلم) ہو گا۔ اللہ تعالی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بات سے بچایا کہ آپ کوئی ناموں سے موسوم ہو۔
دُرِّ یتیم صلی اللہ علیہ وسلم کی رضاعت اور رضاعی مائیں۔
اللہ تعالی نے حضرتِ آمنہ رضی اللہ عنہا کے علاوہ جن خواتین کو عظمت سے نوازا، انہیں یہ سعادت حاصل ہوئی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دودھ پلائیں۔ والدہ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حضرتِ آمنہ رضی اللہ عنہا ہیں، یہ شرف تو کسی اور کو میسر نہیں آسکتا، لیکن جن خواتین کی قسمت میں اللہ رب العزت نے ننّھے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو دودھ پلانے کا شرف بخشا، ان کی سعادت اور عظمت کو امت سلام کرتی ہے، وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رضاعی مائیں ٹھہریں۔
حضرتِ آمنہ رضی اللہ عنہا کے علاوہ حضرتِ ثوبیہ رضی اللہ عنہا اور حضرتِ حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا نے بھی نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو دودھ پلایا۔
ان کے علاوہ جن خواتین کے بارے میں لکھا گیا ہے وہ بلا ثبوت ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں بَنی سُلَیم کی تین عواتک کا بیٹا ہوں۔ بَنی سُلَیم کی تینوں عواتک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دادیاں ہیں، لیکن عربوں میں جب کوئی خاتون ماں بنتی ہے تو اس کا نام تبدیل ہو جاتا ہے، شاید اسی لئے بَنی سُلیم کی عاتکہ نام کی تین عورتیں سیرت نگاروں کو سامنے نظر نہ آئیں تو انہوں نے لکھ دیا ہے۔ بَنی سُلیم کی ان خواتین نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دودھ پلایا۔ ایک بزرگ نے حضرت امِ ایمن رضی اللہ عنہا کے بارے میں یہی لکھ دیا، اسی طرح بنتِ منذر اور امِ فروہ کے بارے میں بھی یہ بات چلا دی گئی جو کہ حقائق کے بالکل دور کی بات ہے۔
خانوادہء نبوی (صلی اللہ علیہ وسلم) کے متعلق گمراہ کن پروپیگنڈا کی حقیقت۔
سیرت النبی المختار صلی اللہ علیہ وسلم کے موضوع پر قلم اٹھانے والے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کے دن سے لے کر بلکہ اس سے بھی پہلے کے ذکر میں عُسرت اور تنگدستی کا اثر و رسوخ بتاتے ہیں اور یہ ثابت کرنے میں کوشاں رہتے ہیں کہ "حضور صلی اللہ علیہ وسلم غریب تھے، مفلوک الحال تھے، وہ عُسرت کی زندگی بسر کرتے تھے، اُنہیں ترکہ میں کچھ بھی نہ ملا تھا اور اُن کے سرپرست اور نگران ابوطالب بھی بھوک و افلاس کا شکار تھے۔"
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رضاعت کے سلسلے میں بھی یہی کچھ لکھا جا رہا ہے اور اب تک وہی روایت چلی آرہی ہے کہ حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا اسلئے عبدالمطلب کے خاندان کی طرف رخ نہیں کرتی تھیں کہ یہ غریب اور تنگ دست لوگ تھے، یہاں سے مجھے کیا ملے گا؟"
اس سلسلے میں صحیح صورتحال حضرتِ حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا کے ذکر میں بیان کی جا رہی ہے جس سے اس مفروضے کو خود ہی عقل و خرد کی کسوٹی پر پرکھا جاسکتا ہے کہ یہ خاندان غریب اور عسرت زدہ تھا یا متمول اور امیر و کبیر؟
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نسب مبارک یہ ہے،
"محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، بن عبداللہ بن مطلب بن ہاشم بن عبد مناف بن قصی بن کلاب بن مرہ بن کعب بن لؤی بن غالب بن فہر بن مالک بن نضر بن کنانہ بن خزیمہ بن مدرکہ بن الیاس بن مضر بن نزار بن سعد بن عدنان رضی اللہ عنھم اجمعین۔"
حضرت عدنان رضی اللہ عنہ حضرت اسماعیل علیہ السلام بن حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اولاد سے تھے،
ابراہیم سیالکوٹی رقمطراز ہیں ہیں حضرتِ اسماعیل علیہ السلام کے بارہ بیٹے تھے، یہ سب اپنی امتّوں کے بارہ رئیس تھے، یہ سب عرب کے مختلف علاقوں میں آباد ہوئے، عرب کے کئی ایک شہر ان کے نام پر آباد ہوئے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جدِّ امجد حضرت کنانہ کے بارے میں یہ ہے کہ یہ انتہائی مہمان نواز تھے، اکیلے خانہ تناول نہیں فرماتے، جب کوئی ساتھ کھانے والا نہ ہوتا تو ایک لقمہ تناول فرماتے اور دوسرا لقمہ پتھر پر رکھ دیتے۔
حضرت کنانہ کے پوتے مالک کو مالک اس لیے کہا جاتا تھا کہ وہ اس وقت ملکِ عرب کے حاکم تھے تھے۔
علامہ ابن جوزی اور دیگر کئی حضرات لکھتے ہیں کہ حضرتِ قصی بن کلاب، مکہء مکرمہ کے سردار تھے۔
زرقانی کہتے ہیں کہ قصی بن کُلاب کو تمام قبائلِ قریش پر اقتدار حاصل تھا، حاجیوں کو کھانا کھلانے، زمزم کا پانی پلانے، مسافروں کی پذیرائی کرنے، مشورہ کے لئے روساء قریش کو دارالندوہ میں طلب کرنے اور قریش کا پرچم لہرانے کے اہم فرائض ان کے سپرد تھے۔
قصی کے بیٹے عبد مناف کا اصل نام مغیرہ تھا۔ اپنی سرداری کے عہد میں قریش کو خداترسی و حق شناسی کی نصیحت فرمایا کرتے تھے۔ ایک بار حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ اقدس میں کسی شاعر کے چند اشعار پڑھ کر سنائے، اُن میں سے ایک شعر کا ترجمہ یہ ہے۔
"او گٹھڑی اٹھا کر جانے والے! یعنی مسافر، تو عبدِ مناف والوں کے یہاں کیوں نہ جا اُترا۔ اگر وہاں چلا جاتا تو ناداری اور تنگدستی کو دور کر دیتے، وہ تو امیر و غریب سے یکساں سلوک کرتے ہیں اور فقیر کو مستغنی کر دیتے ہیں۔"
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان اشعار کو سن کر متبسم اور مسرور ہوئے تھے۔
احمد ذہنی دحلان لکھتے ہیں، اس کے بعد ان کے بیٹے عبد مناف، پھر ان کے بیٹے ہاشم، پھر ان کے بیٹے عبد المطلب، پھر ان کے بیٹے ابوطالب حاجت مندوں کے لیے کھانے کا اہتمام کرتے رہے۔
اس سے یہ بات صاف طور پر سامنے آجاتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آباء و اجداد سردار اور سخی تھے اور جو لوگ ان کی خدمت میں حاضر ہوتے تھے، اُن کی تنگدستی اور ناداری کو دور کر دیتے تھے۔
0 تبصرے
bebaakweekly.blogspot.com