حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اجداد نہایت سخی، مالدار، مہمان نواز اور راہ خدا میں خرچ کرنے والے تھے۔


حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اجداد نہایت سخی، مالدار، مہمان نواز اور راہ خدا میں خرچ کرنے والے تھے۔

قسط نمبر 4
تلخیص و ترسیل: رضوی سلیم شہزاد، رضا اکیڈمی مالیگاؤں۔
(افادہ: پیارے نبی کا پیارا بچپن، از منصور احمد بٹ، شائع کردہ امام احمد رضا اکیڈمی،بریلی شریف)


حضورِ پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے پَردادا، سردارِ عرب، حضرت ہاشم کی سخاوت و خداترسی ۔
حضرت ہاشم کا اصل نام عمرو تھا، دوسرا نام عبدالعلی تھا، ان کا لقب ہاشم یوں پڑا کہ انہوں نے ایک بار سنا کہ مکہ میں آٹا کمیاب ہو رہا ہے۔ اُس وقت حضرت ہاشم مال تجارت لے کر شام گئے ہوئے تھے۔ شام سے لوٹتے وقت سب اونٹوں پر روٹیاں اور آٹا لاد لائے اور مکہ پہنچ کر دعوت عام کردی۔ گوشت اور شوربے میں روٹیاں توڑ کر ڈالیں گئیں۔ "ہشم" ٹکڑے ٹکڑے کرنے کو کہتے ہیں، اس لئے ہاشم نام ہوا۔ اس وقت کے بعد ہر سال موسم حج میں وہ زائرینِ کعبہ کو دعوتِ عام دیا کرتے تھے اور یہی کھانا جسے لغتِ عرب میں "ثرید" بھی کہتے ہیں، کھلایا کرتے تھے تھے۔
حضرت ہاشم رضی اللہ عنہ مہمان نواز، حقوق کی ادائیگی کرنے والے، اور خوفزدہ کی بجائے امان تھے۔ حضرت ہاشم کی امارت، اُن کی فیاضی، اُن کے دسترخوان کی وسعت کا ذکر کتب میں تفصیل سے مذکور ہے۔ حضرت ہاشم قبیلہ قریش کے معزز سردار تھے۔ ان کے گھر میں مال و منال وافر تھا۔ ان کی سیادت کی شان کچھ ایسی تھی کہ حبشہ کے فرمانروا اور روم کے قیاصرہ اُن کے ساتھ ادب و احترام سے پیش آتے تھے۔ اُن کی خاطر مدارت کو سرمایہء فخر جانتے تھے۔
سیرتِ دحلانیہ میں ہے: ہاشم اور آپ کے بھائیوں عبدشمس، مطلب اور نوفل کے بارے میں لوگ کہا کرتے تھے کہ یہ سونا ہیں اور لوگوں کی پناہ گاہ اور ان کا اعز و افتخار ہیں اور عرب کے سردار ہیں۔
حضرت ہاشم کے بعد ان کے بیٹے عبدالمطلب کا ذکر آتا ہے۔

چرند و پرند اور طیور کے میزبان، عبدالمطلب کی مہمان نوازی اور دریا دلی۔
 عبدالمطلب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دادا تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے والد گرامی حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہ چونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش سے قبل ہی انتقال فرما چکے تھے اس لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سرپرست حضرت عبدالمطلب ہی تھے۔
حضرت عبدالمطلب جود و سخا میں اپنے والد سے بھی بڑھ کر تھے۔ آپ نہایت سخی و کریم تھے۔ قریش کے سرداروں میں ایک صاحبِ وجاہت سردار تھے۔ وہ حج کے دنوں میں اپنی اونٹنیوں کا دودھ اور شہد ملا کر زمزم کے پانی میں ملاتے اور حاجیوں کو پلاتے۔ حاجی اس مشروب میں مزید پانی ملا کر اس کا گاڑھا پن دور کرتے تھے۔ ان کی مہمان نوازی کا اثر چرند پرند اور طیور تک پہنچتا تھا۔ وہ پہاڑوں کی چوٹیوں پر وحوش و طیور کے لیے کھانا بکھیر دیتے تھے۔ جس کی وجہ سے آپ کو پرندوں کا میزبان اور فیاض کہا جاتا تھا۔
بعض سیرت نگار جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو عُسرت زدہ، تنگدستی اور مفلوک الحال قرار دیتے ہیں اور یہاں تک کہہ دیتے ہیں کہ:
"حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ تعالی عنہا، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو دودھ پلانے کے لیے اس لئے نہیں لے جانا چاہتی تھی کہ یہاں سے مجھے اُجرت میں کچھ نہ ملے گا۔" تو یہ بات غلط ہے۔
بلکہ درست بات یہ ہے کہ اگرچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے والدِ ماجد حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہ انتقال فرما چکے تھے لیکن آپ کے دادا حضرت عبدالمطلب تو حیات تھے۔ اور وہ کتنے خوش حال تھے اس کا اندازہ یوں لگائیے کہ جب انہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی دادی حضرت فاطمہ بنت عمر سے نکاح کیا تو بڑی کوہان والی ایک سو ناقہ (اونٹنی) اور دس اوقیہ سونا (جو آج ایک سو تولہ بنتا ہے) مہر میں دیا۔
اسی طرح سیرت کی تمام کتب میں موجود ہے کہ حضرت عبدالمطلب نے منّت مانی تھی کہ اگر ان کی اولادِ کثیر ہوئی تو وہ اپنا ایک بیٹا خدا کی راہ میں قربان کردیں گے۔ ایسا موقع آیا تو قرعہ حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ (حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے والد) کے نام پر پڑا۔ حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ تو والد کی خوشنودی کے لئے قربانی پر آمادہ تھے لیکن ان کی بہنیں اور ماموں سدِّ راہ ہوگئے۔ راستہ یہ نکلا کہ دس دس اونٹوں کے فدیہ پر قرعہ نکالا جائے، آخر سو اونٹوں پر قرعہ نکلا اور حضرت عبدالمطلب نے اپنے بیٹے حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ کے عوض سو(100) اونٹ خدا کے نام پر قربان کر دیے۔
اگر کسی کے ذہن میں یہ بات ہے کہ حضرت عبدالمطلب کے آبا بھی امیرکبیر تھے، حضرت عبدالمطلب بھی امیر رہے، لیکن جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت مبارک کا وقت آیا تو یہ غریب اور مفلوک الحال ہو چکے تھے، تو یہ بات بھی درست نہیں۔ حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ کے عوض سو اونٹ قربان کر دینے کا واقعہ بھی ذیادہ دور کا نہیں۔ مزید قریب کا واقعہ دیکھئے۔ اور اُس وقت کا تصور کیجئے جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت سے قریباً پچاس دن پہلے ابراہتہ الاشرام نے کعبہ شریف کو مسمار کرنے کے عزم سے حملہ کیا۔ ابرہہ نے اسود بن مقصود حبشی کو مقدمۃ الجیش کے طور پر روانہ کیا، وہ ان چوپایوں کو ہنکا کر لے گیا جو میدانِ تہامہ میں چَر رہے تھے۔ اُن اونٹوں میں حضرت عبدالمطلب کے اونٹ بھی تھے۔ محمد حسین ہیکل نے لکھا ہے: یہ ایک سو اونٹ تھے۔بعض کتب میں ہے: یہ دو سو اونٹ تھے۔ لیکن کئی کتب میں یہ تعداد چار سو ہے۔ اب یہ تعداد چار سو تھی، دو سو تھی، یا پھر ایک سو، حضرت عبدالمطلب ابراہہ سے یہ اونٹ واپس لے آئے تو انہوں نے ان اونٹوں کو قربانی کے لیے وقف کر دیا۔
یہ واقعہ اس دنیائے آب و گِل میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری سے پہلے کا ہے اور یہاں حضرت عبدالمطلب اتنے امیر دکھائی دیتے تھے کہ سو، دو سو یا چار سو اونٹ قربانی کے لیے وقف کرتے ہوئے بالکل متردّد نہیں ہوتے۔ یہ بات ذہن نشین رہے کہ سو اونٹ کہنے کو آسان ہے۔ ورنہ حقیقت میں سو اونٹوں کا مالک بہت دولت مند ہوتا تھا۔

ولادت کی خوشی میں دادا نے اہل مکہ کی دعوت کی، گُمشدہ ہونے اور واپس ملنے پر سو رطل سونے کا صدقہ۔

جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم عالَمِ آب و گِل میں تشریف لائے تو حضرت عبدالمطلب نے انتہائی تزک و احتشام سے جشن منایا، تمام اہل مکہ کی دعوت کی، بڑی دھوم کے ساتھ عقیقہ کیا، پھر جب حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو واپس مکہ چھوڑنے کے لیے آئیں اور ننھے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک جگہ چھوڑ کرکے قضائے حاجت کے لیے گئیں اور واپسی پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نہ پاکر پریشان ہوئیں، بہت تلاش کیا مگر کہیں نہ پایا، پھر حضرت عبدالمطلب تک پہنچیں، پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم مل گئے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دادا عبدالمطلب نے (بعض مصنفین کے بقول) بہت سا سونا اور بے شمار اونٹ صدقہ میں دیا۔
بعض سیرت نگاروں نے لکھا ہے: بہت سا زروجواہر صدقہ کیا۔
علامہ قسطلانی نے ان اونٹوں کی تعداد بھی لکھی ہے جن کے بارے میں دوسروں نے بہت سے اونٹ یا کثیر التعداد یا بے شمار اونٹ صدقہ میں دینے کی بات کہی۔
بعض سیرت نگاروں کے مطابق علامہ قسطلانی رقم طراز ہیں کہ "حضرت عبدالمطلب نے اس موقع پر بڑے کوہان والے ایک ہزار ناقے اور ایک سو رطل سونا تصدق کیا۔"
مولوی نور الحسن نیر نور اللغات میں لکھتے ہیں: 28 تولے ساڑھے چار ماشے کے وزن کو "رطل" کہتے ہیں۔
سیرت دحلانیہ میں تحریر ہے: اس موقع پر دادا محترم نے ننھے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ملنے کی خوشی میں بکریاں اور گائے ذبح کرکے اہل مکہ کی ضیافت کی۔ سب ہی کتب میں یہ بھی موجود ہے کہ اس صدقہ کے علاوہ حضرت عبدالمطلب نے حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا کو بہت سارا انعام و اکرام عطا کیا۔ ان حقائق سے حضرت عبدالمطلب کی حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کا اندازہ بھی کیا جاسکتا ہے اور ان کی امارت اور فیاضی کا بھی۔
اس تناظر میں قارئین خود ہی فیصلہ کر لیں کہ حقائق کیا تھے!! حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا خاندان تنگدستی و عُسرت میں زندگی بسر کررہا تھا یا پھر خوشحالی کے دامن میں۔
                      (Advertisement) 

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے