کورونا وباء کے خاتمہ کیلئے اللہ کے حضور سجدہ کرنے مذہبی عبادت گاہوں کو کھولا جائے
خلیفہ ہارون الرشید کےسچے واقعہ کو بنیاد بنا کر آصف شیخ کا مہاراشٹر حکومت سے مطالبہ
مالیگاؤں : 3 جون (بیباک@ نیوز اپڈیٹ) کورونا وائرس سے پوری دنیا میں تباہی مچی ہوئی ہے اور یہ بیماری ختم نہیں ہورہی ہے ایسے میں ریاست مہاراشٹر سمیت ہندوستان بھر میں قدرتی آفت کورونا وباء سے سنگین حالات پیدا ہوگئے ہیں جسے ختم کرنے کے لئے مہاراشٹر سرکار نے آپکی سربراہی میں ہمت افزاء خدمات انجام دی ہیں اس لئے مہاراشٹر میں کورونا کے پھیلاؤ روکنے کیلئے کافی حد تک قابو پایا جاسکا ہے ۔ جس کے لئے ہم آپکے اور مہاوکاس اگھاڑی سرکار کے نائب وزیر اعلیٰ جناب اجیت دادا پوار ، وزیر محصول بالا صاحب تھورات ،وزیر صحت راجیش ٹوپے ،وزیر داخلہ انیل دیشکھ کے شکر گزار ہیں کہ انہوں نے بہترین خدمات انجام دی ہیں ۔کورونا وائرس کے خلاف سرکاری سطح پر جو جو کارروائی انجام دی جارہی ہیں وہی سب قابل قبول اور تعریف کے لائق ہیں لیکن میرا خیال ہے کہ ان احتیاطی تدابیر کے ساتھ ہی کورونا بیماری پر قابو پانے اور کورونا کو شکست دینے کے لئے ہمیں اللہ تعالیٰ کے حضور سجدہ ریز ہونے کی اشد ضرورت ہے ۔ اسطرح کی تفصیلات کے ساتھ ایک مکتوب ریاستی حکومت کے وزیر اعلی ادھوٹھاکرے، نائب وزیر اعلیٰ اجیت دادا پوار ،وزیر داخلہ انیل دیشکھ ،وزیر محصول بالا صاحب تھورات اور وزیر صحت راجیش ٹوپے کو مالیگاوں کے سابق رکن اسمبلی آصف شیخ نے دیا ہے اور مطالبہ کیا ہے کہ صدیوں قبل خلیفہ ہارون الرشید کے دور میں رونما ہوا سچہ واقعہ میرے مطالعہ سے گزرا ہے جسے میں اس مکتوب کے ساتھ آپکی خدمت میں پیش کررہا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ کچھ آفتیں آسمانی اور کچھ زمینی ہوا کرتی ہیں اور یہ کورونا وباء آسمانی آفت ہے اس لیے اس قدرتی وباء پر قابو پانے کےلئے اللہ تعالیٰ کے حضور ہمیں سجدہ ریز ہونے کی اشد ضرورت ہے ۔ آصف شیخ چار صفحاتی مکتوب میں لکھا ہے کہ مہاراشٹر میں تمام مذاہب کے ماننے والے ہیں اس لئے سرکار ریاست میں آباد تمام عبادت خانوں کو فوری طور پر جاری کرے ۔ جن میں مساجد، خانقاہوں، مدارس، منادر، گرجا گھر، گرودوار، بدھ وہار ،چرچ، وغیرہ کو سوشل ڈسٹنسنگ کی شرط کے ساتھ عبادت کے لئے شروع کردیا جائے ۔ تاکہ عبادات کے سبب ہم اللہ کو راضی کرسکے اور اس مہا ماری کورونا کو اپنی ریاست اور ملک سے ختم کرسکتے ہیں اور دنیا سے بھی اس وباء کا خاتمہ کیا جاسکے ۔اس لئے میرا مطالبہ ہے کہ سرکار ریاست کے تمام مذہبی عبادت خانوں کو جاری کرنے کی اجازت دے ۔آصف شیخ نے وزیر اعلیٰ و ریاستی وزراء کو جو لیٹر دیا ہے اس میں خلیفہ ہارون الرشید کے دور میں ہوئے سچے واقعہ کی تفصیلات موجود ہیں جسے قارئین کی خدمت میں پیش کیا جارہا ہے ۔
*خلیفہ ہارون رشید کے دور کا قصّہ(جب ان کے ملک میں سخت قحط پڑا تھا)*
خلیفہ ہارون رشید عباسی خاندان کے پانچویں خلیفہ تھے عباسیوں نے طویل عرصے تک اسلامی دنیا پر حکومت کی لیکن ان میں سے شہریت صرف خلیفہ ہارون رشید کو حاصل ہوئی خلیفہ ہارون رشید کے دور میں ایک مرتبہ بہت بڑا قحط پڑگیا اُس وقت کے اثرات ثمر قند سے لے کر بغداد تک اور کوفہ سے لیکر مراکش تک ظاہر ہونے لگے ہارون رشید نے اس قحط سے نمٹنے کے لئے تمام تدبیریں آزمالیں انہوں نے غلے کے گودام کھول دیئے ٹیکس معاف کر دیئے پوری سلطنت میں سرکاری لنگر خانہ قائم کردیئے اور تمام امراء اور تاجروں کو متاثرین کی مدد کے لئے آمادہ کرلیا لیکن اس کے باوجود عوام کے لئے حالات ٹھیک نہ ہوسکے.... ایک رات ہارون رشید نہایت پریشانی کے عالم میں تھے انہیں نیند نہیں آرہی تھی اس عالم میں انہوں نے اپنے وزیر یحییٰ بن خالد کو طلب کیا (یحییٰ بن خالد ہارون رشید کے وزیر ہونے کے علاوہ ان کے استاد بھی تھے ) اور یحییٰ بن خالد سے کہا 'استاد محترم! آپ مجھے کوئی بھی ایسی کہانی، ایسی داستان سنائیے جسے سن کر مجھے قرار آجائے' یحییٰ بن خالد مسکرایا اور کہا 'بادشاہ سلامت! میں نے اللّہ کے کسی نبی کی حیات طیبہ میں سے ایک داستان سنی تھی یہ داستان مقدر، قسمت اور اللّہ کی رضا کی سب سے بڑی اور شاندار تشریح ہے اگر آپ اجازت دیں تو میں وہ داستان آپ کے سامنے دوہرا دوں_ بادشاہ نے بے چینی سے کہا اے استاد محترم فوراً فرمائیے میری جان حلق میں اٹک رہی ہے
بادشاہ سلامت! قصّہ یوں ہے کہ کسی جنگل میں ایک بندریا سفر کے لئے روانہ ہوئے نے لگی اس کے ساتھ اس کا بچہ بھی تھا بچے کو ساتھ نہیں لے جاسکتی تھی چنانچہ وہ شیر کے پاس گئی اور اس سے عرض کی جناب! آپ جنگل کے بادشاہ ہیں میں سفر پر روانہ ہورہی ہوں اور میری خواہش ہے کہ آپ میرے بچے کی حفاظت اپنے ذمہ لے لیں شیر نے بندریا کی بات سن کر حامی بھرلی بندریا نے اپنا بچہ شیر کے حوالے کردیا شیر نے اس کا بچہ اپنے کندھے پر بٹھالیا_ بندریا سفر پر روانہ ہوگئی شیر روزانہ بندر کے بچے کو اپنے کندھے پر بٹھاتا اور اپنے روزمرہ کے کام بھی کرتا تھا ایک دن وہ جنگل میں گھوم رہا تھا کہ اچانک آسمان سے ایک چیل آئی اور شیر کے قریب پہنچی اور بندریا کا بچہ اٹھا کر آسمان میں گم ہوگئی شیر جنگل میں بھاگا دوڑا لیکن وہ چیل کو نہ پکڑ سکا_
یحییٰ بن خالد رُکا اس نے سانس لی اور خلیفہ ہارون رشید سے عرض کیا 'بادشاہ سلامت! چند دنوں کے بعد بندریا واپس آئی اور شیر سے اپنے بچے کا مطالبہ کیا شیر نے شرمندگی سے جواب دیا کہ تمہارا بچہ تو چیل لے گئی بندریا کو غصہ آیا اور چِلّا کر کہا کہ تم کیسے بادشاہ ہو تم ایک امانت کی حفاظت نہیں کرسکے تم اس سارے جنگل کا نظام کیسے چلاؤ گے؟ شیر نے افسوس سے سر ہلایا اور بولا میں زمین کا بادشاہ ہوں اگر زمین سے کوئی آفت تمہارے بچے کی طرف بڑھتی تو میں اسے روک لیتا لیکن یہ آفت آسمان سے اتری تھی اور آسمان کی آفتیں صرف اور صرف آسمان والا روک سکتا ہے_
یہ کہانی سنانے کے بعد یحییٰ بن خالد نے ہارون رشید سے عرض کیا 'بادشاہ سلامت! اگر قحط کی یہ آفت بھی زمین سے نکلی ہوتی تو آپ اسے روک لیتے لیکن یہ آفت آسمانی ہے یہاں بادشاہ نہ بنیں بلکہ آپ فقیر بن جائیں آفت خود بخود رک جائے گی_
میرے محترم عزیر دوستوں! دنیا میں مصیبتیں دو قسم کی ہوتی ہیں آسمانی مصیبتیں اور زمینی آفتیں، آسمانی آفت سے بچنے کے لئے اللّہ کا راضی ہونا ضروری ہوتا ہے گڑگڑا کر اپنے گناہوں کی معافی مانگنا ضروری ہوتا ہے جب کہ زمینی آفتوں سے بچاؤ کے لئے انسانوں کا متحد ہونا وسائل کا بھرپور استعمال اور حکمرانوں کا اخلاص درکار ہوتا ہے یحییٰ بن خالد نے ہارون رشید سے کہا تھا کہ بادشاہ سلامت آسمانی آفتیں اس وقت تک ختم نہیں ہوتیں جب تک انسان اپنے رب کو راضی نہیں کرلیتا اس آفت کا مقابلہ بادشاہ بن کر نہیں کرسکیں گے_ چنانچہ آپ فقیر بن جائیں اللّہ کے حضور گر جائیں اور اس سے توبہ کریں اور اس سے مدد مانگیں دنیا کے تمام مسائل اور ان کے حل کے درمیان صرف اتنا فاصلہ ہوتا ہے جتنا ماتھے اور جائے نماز میں ہوتا ہے اور افسوس ہم اپنے مسائل کے حل کے لئے سات سمندر پار تو جاسکتے ہیں لیکن ماتھے اور جائے نماز کے درمیان موجود چند انچ کا فاصلہ طئے نہیں کرسکتے _ آصف شیخ رشید نے اس مکتوب کی ایک کاپی ضلع کلکٹر سورج مانڈھرے کو بھی روانہ کی ہے اور اس بات پر زور دیا کہ یہ وباء زمینی بادشاہوں کے بس میں نہیں بلکہ بادشاہوں کے بادشاہ آسمانی و زمینی سلطنت کے عظیم الشان حکمران اللہ رب العزت کے بس میں ہے ۔ اس لئے عبادت گاہوں کو فوری طور پر جاری کردیا جائے ۔
0 تبصرے
bebaakweekly.blogspot.com