ارطغرل غازی کون تھے؟سلطنت عثمانیہ کے بانی ، قائی قبیلے کے سردار، سلجوقی تلوار، ترکی کے نگراں، خانوادہ سلطان صلاح الدین ایوبی کے وفادار ، منگولوں ، یہودیوں اور صلیبیوں کے لیے قہر خداوندی


ارطغرل غازی کون تھے؟

سلطنت عثمانیہ کے بانی ، قائی قبیلے کے سردار، سلجوقی تلوار، ترکی کے نگراں، خانوادہ سلطان صلاح الدین ایوبی کے وفادار ، منگولوں ، یہودیوں اور صلیبیوں کے لیے قہر خداوندی


پیشکش: عطاءالرحمن نوری ، ریسرچ اسکالر (مالیگاوں)


ارطغرل غازی سلطنت عثمانیہ کے بانی غازی عثمان اول کے والد تھے ۔وہ ترک ” اوغوز“ کی شاخ ” قائی “ قبیلے کے سردار تھے ۔ انھیں عام طور پر غازی کے لقب سے جانا جاتا ہے ۔ آپ ایک بہادر، نڈر، عقلمند ، دلیر ، ایمان دار اور بارعب کمانڈر تھے ۔آپ کی پیدائش یکم جنوری 1198ءکو بورصہ میں ہوئی اور83 سال کی عمر میں یکم ستمبر 1281ءمیں سوگوت میں آپ کا انتقال ہوا۔ ارطغرل غازی کے تین بیٹے تھے ۔ گندوز ، ساوچی اور عثمان ۔ آپ کے تیسرے بیٹے عثمان نے 1291ءمیں اپنے والد کی وفات کے دس سال بعد خلافت بنائی جسے خلافت عثمانیہ کے نام سے جاناجاتا ہے ۔ خلافت عثمانیہ نے صدیوں تک اُمت مسلمہ کا دفاع کیا۔ مسجد نبوی ، گنبدی خضریٰ اور مسجد حرام کی جدید تعمیر کرائی ۔ سیدنا امیر حمزہ رضی اللہ عنہ کا مزار بنایا، مکہ مکرمہ پانی کی نہر بنائی ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے مزار مبارک کے ارد گرد سیسہ پلائی ہوئی دیوار بنائی ۔ترکی سے مکة المکرمہ میں ٹرین کا انتظام کیا۔
بارہویں صدی عیسویں میں جب منگول فتنہ سر اُٹھا رہا تھا تو ارطغرل غازی نے علم جہاد بلند کیا ۔ ایک طرف منگول تھے تو دوسری طرف بازنطینی ۔ چوتھی صدی عیسویں میں سلطنت روم دو حصوں مغربی روم اور مشرقی روم میں تقسیم ہوگئی۔ مشرقی حصہ اپنے دارالحکومت بازنطین کے نام پر بازنطینی سلطنت کہلایا۔ ارطغرل غازی کو منگول کا بھی خاتمہ کرنا تھا اور بازنطینی حملے کا بھی۔ دونوں طرف سے آپ جنگ میں مصروف رہے ۔
ارطغرل غازی کا خاندان وسط ایشیاءسے تعلق رکھتا ہے ۔ان کے جد امجد اوغوز خان کے بارہ بیٹے تھے جن سے بارہ قبیلے بنے ۔ان بارہ قبیلوں میں سے ایک قائی قبیلہ تھا۔ اسی قبیلے سے ارطغرل غازی کا تعلق تھا۔ آپ کے والد کا نام سلیمان شاہ اور والدہ کا نام حائمہ تھا۔ سلیمان شاہ کے چار بیٹے تھے : صارم ، ارطغرل ، ذوالجان ،گلدارو۔ سلیمان شاہ قائی قبیلے کے سردار تھے جو سچے مسلمان ، نڈر اور رحمدل انسان تھے۔ ان کے مقاصد میں اسلام کی اشاعت اور انصاف کا بول بالا کرنا تھا۔منگول ہلاکو خان کی سربراہی میں بڑھتے چلے آرہے تھے اور خلافت عباسیہ کو ختم کرنے کے بعد سلجوق سلطنت ان کی منزل تھی ۔ بازنطینی سلطنت کے صلیبی اپنے سازشوں کے جال بن رہے تھے ۔ مسلمانوں کی مضبوط اور طاقت ور سلجوق سلطنت اب زوال کے قریب تھی۔ سلیمان شاہ تمام ترک قبائل کو متحد کرنا چاہتے تھے تاکہ مسلمانوں کو عیسائیوں کی یلغار سے بچایا جا سکے ۔ شام کے علاقے پر سلطان صلاح الدین ایوبی کے پوتے سلطان ملک العزیز ایوبی کی حکومت تھی جب کہ اناطولیہ (موجودہ ترکی )میں سلجوق سلطان علاوالدین کیکوباد کی حکومت تھی۔ صلیبی دونوں سلطانوں کو آپس میں لڑانا چاہتے تھے تاکہ اس خطے میں مسلمانوں کو کمزور کرکے ان کا خاتمہ کر سکیں۔
سردار سلیمان شاہ نے ان سازشوں کو ختم کرنے میں بڑا کردار ادا کیا جس کی وجہ سے ایوبی سلطان قائی قبیلے کے دوست بن گئے اور سلجوق سلطان کی بھتیجی حلیمہ سلطان کی سلیمان شاہ کے بیٹے ارطغرل سے شادی ہوگئی۔ سلیمان شاہ کے انتقال کے بعد ارطغرل قائی قبیلے کے سلطان بنے ، وہ بہت ذہین اور بہترین جنگجو تھے ۔ انھوں نے صلیبیوں کو کئی محاذ پر شکست دی تھی اور ان کے مشہور قلعے کارہ چاہسار کو بھی فتح کیا۔
ارطغرل غازی ساری عمر سلجوق سلطنت کے وفادار رہے ۔بہادری ، شجاعت ،وفاداری اور ان کی خدمات سے متاثر ہوکر سلطان علاوالدین کیکوباد نے ارطغرل غازی کو تمام اغوض قبائل کا سردارِ اعلیٰ اور اناطولیہ یعنی ترکی کا نگراں بنا دیا۔ ارطغرل غازی کے تین بیٹے تھے: گندوز ، ساوچی اور عثمان ۔ عثمان بھائیوں میں چھوٹے تھے۔ ارطغرل غازی نے ان کی دینی اور جنگی تربیت کی اور وہ بڑے ہو کر والد کے شانہ بشانہ جنگوں میں شامل ہوتے رہے ۔ سلجوق سلطنت منگولوں کے ہاتھوں ختم ہو چکی تھی ۔ ارطغرل غازی نے تمام ترک قبیلوں کو سوگوت میں اکٹھا کیا ۔ صلیبیوں سے چھینے گئے علاقوں کو ریاست کی ایک شکل دی اور تعلیم وتربیت کے لیے درسگاہیں تعمیر کروائیں۔
ارطغرل غازی نے منگولوں کا خاتمہ کرنے کے لیے فیصلہ کن جنگ کا ارادہ کیا اور اس مقصد کے لیے منگول سلطان برکا خان جو مسلمان ہو چکے تھے اور مصر کے سلطان رکن الدین بیبرس کو آمادہ کیا اور طے پایا کہ ایک بڑی فوج تیار کی جائے جس میں تمام ترک قبائل بھی شامل ہوں، اناطولیہ میں فیصلہ کن جنگ کا آغاز ہوا، منگولوں کو عبرتناک شکست ہوئی ، شکست کے غم سے ہلاکو خان چند مہینے کے بعد مر گیا۔
ارطغرل غازی صلیبیوں اور منگولوں کو اس علاقے سے نکالنے میں کامیاب ہوگئے، سوگوت ایک ریاست بن چکی تھی ۔ ان کی وفات کے بعد ان کے چھوٹے بیٹے عثمان قائی قبیلے کے سردار بنے ، وہ اب ریاست سوگوت کے سلطان کہلائے جاتے تھے ۔ 1299ءمیں خلافت قائم کی جو خلافت عثمانیہ کے نام سے مشہور ہوئی۔ ارطغرل غازی کی اولاد سے سلطنت عثمانیہ کے ساتویں سلطان محمد ثانی جنھوں نے قسطنطنیہ کو فتح کیا ، سلطان محمد الفاتح کے نام سے مشہور ہوئے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بشارت کے حقدار ٹھہرے ۔ سلطنت عثمانیہ اپنے عروج کے زمانے میں تین براعظموں پر پھیلی ہوئی تھی۔ سلطنت عثمانیہ میں 623سالوں میں 36 سلاطین نے فرماروائی کی ۔ یہودی اور صلیبی سلطنت عثمانیہ کے جاہ و جلال اور عظمت سے لرزاں رہتے تھے۔ اللہ پاک عظیم مجاہد غازی ارطغرل اور سلطان عثمان غازی پر اپنی رحمتیں نازل فرمائے اور ان کے درجات کو بلند کرے۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے