آج کچھ بات ہے جو شــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــا م پہ رونا آیامحمد شیراز، کشمیر۔



آج کچھ بات ہے جو شــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــا م پہ رونا آیا

محمد شیراز، کشمیر۔

روسی اور شامی فرعونوں نے شامی مسلمانوں پر بربریت کا مظاہرہ کیا اور لاکھوں اہل ایماں کو بے گھر کر دیا، بچوں کو یتیم کر دیا ان کے منہ سے نوالے چھینے اور طفل مادر کو بے شیر کر دیااور ان سے ماں کی گود چھین لی، عورتوں کو بیوہ کر دیا، کمزوروں کو بے سہارا کر دیا۔دنیا کے کل ستاون(۷۵) اسلامی ممالک اوروہاں کے رہنے والے مسلمان تماشائی بنے دیکھتے رہے۔تغافل و تجاہل عارفانہ سے کام لیتے ہوئے چند مذمتی الفاظ کہہ کر اپنے کاموں میں دوبارہ مصروف ہو گئے۔ فلسطین تباہ ہوا، عراق تباہ ہوا، وہاں کے مقدس مقامات پر امریکہ نے بم گرائے۔افغانستان ویمن تباہ ہوا۔

بعد ازاں برما کے مسلمانوں کا نمبر آیا ۔جہاں کی حکومت نے انھیں اپنے ملک سے بے دخل کر دیا۔لاکھوں کی تعد اد میں روہنگیا مسلمان جلا وطن کر دیے گئے اور دنیا کے دیگر ممالک میں پناہ لینے پر مجبور ہو گئے۔کیا ہندوستان کیا پاکستان ، سب نے اپنا دامن جھٹک لیا۔ایسے حالات میں بنگلہ دیش سامنے آیا اور اس نے ان مسلمانوں کو اپنی سر زمین پر پناہ دی۔جب کہ بنگلہ دیش ایسا ملک ہے جو خود اپنی ضروریات کے لیے دنیا کے دیگر ممالک پر انحصار کرتا ہے تاکہ اپنے ہی ملک کی عوام کی ضروریات کو پورا کر سکے ۔تقریباً بارہ لاکھ برمی مسلمانوں نے بنگلہ دیش میں پناہ لی ۔بنگلہ دیش کا یہ قدم لائق صد و تحسین ہے ۔مگردیکھنے والوں نے بتایا کہ و ہاں مسلمان ایسی حالت میں ہیں کہ ان کو رہنے کے لیے گھر نہیں ہے ۔ایسی جگہ ان کا قیام ہے جہاں بارشوں میں پانی بھر جایا کرتا ہے ۔نان شبینہ کے محتاج ہیں ۔بیوی ، شوہر کی متلاشی ہے تو بچے ماں کے متلاشی ہیں۔سوائے ترکی کے، کوئی اسلامی ملک(بنگلہ دیش کو مستثنیٰ کر کے) ان کی ہمدردی و غمگساری میں آگے نہ آسکا۔ترکی کے وزیر اعظم نے یہ کہا کہ روہنگیا مسلمانوں نے دو سو سال پہلے دس ہزار ڈالر سے سلطنت عثمانیہ کی مدد کی تھی ۔یہ بات ترکی کے ریکارڈ میں موجو د ہے۔یہ احسان مندی کا تقاضا ہے کہ آج روہنگیا مسلمانوں کی مدد کی جائے۔

 اب مرور زمانہ کے تحت اور تا امروز لوگوں نے اسے بھی بھلانا شروع کر دیا ہے۔حالانکہ کرونا کے حالات نے ان مظلوموں کے آٹے کو مزید گیلا کرنے کا کام کیا ہے نیز بھوک کی آگ کے لیے دو آتشے کا کام دیا ہے ۔بے ضمیری کی جو مثال آج عالم اسلام نے قائم کی ہے ، اس کی نظیر ماضی میں ملنا مشکل ہے۔بے شک یہ قرب قیامت کا دور ہے۔بے حسی اور مادہ پرستی کا ہر طرف غلغلہ ہے۔

میری نوائے شوق سے شور حریم ذات میں 
غلغلہ ہائے الاماں بت کدہ صفات میں

ہر آدمی کو صرف اپنی فکر ہے۔نفسا نفسی کا عالم ہے۔کرونا کے دور میں یہ حیوانیت اور بھی ابھر کر سامنے آئی ہے۔ایسے حالات میں ایک ویڈیو ، سوشل میڈیا پر نشر کیا گیا ہے۔جس میں ایک انگریز اینکر، ایک شامی بچے سے پوچھتی ہے کہ آپ اپنی مام(امی) کو مِس کرتے ہیں؟ بچہ بے ساختہ کہتا ہے ۔ ©”نو“(نہیں)۔وہ اینکر اس جواب پر ہنسنے لگتی ہے۔وہ بچہ بھی ہنسنے لگتا ہے مگر معاً رونے لگتا ہے۔جس کو دیکھ کو وہ اینکر بھی رونے لگتی ہے۔اس منظر نے مصنف کو رونے پر مجبور کر دیا ہے، بلکہ بہت رلایاہے۔امید ہے ہر انسان سے، جس میں احساس زیاں کی کوئی بھی چنگاری باقی ہو، وہ روئے گا اور ملت اسلامیہ کی بے بسی اور بے حسی پر اسے بہت رونا آئے گا کہ اس کے علاوہ کیا بھی کیا جا سکتا ہے ۔اس ویڈیو کی لنک یہ ہے
 
https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=1928369553897418&id=100001731758561&sfnsn=wiwspw

معلوم نہیں ہماری قوم کو کب ہوش آئے گا۔کب عالم اسلام ، مشرق و مغرب کے مسلمانوں کے درد کو محسوس کرے گا۔اسلام نوازیت سے بڑھ کر بات کب انسان نوازیت تک پہنچتی ہے۔معلوم ہوتا ہے کہ خواب غفلت سے بیدار ہونے میں ایک لمبا عرصہ درکار ہے ۔بقول شخصی ( تھوڑی ترمیم کے ساتھ) :

آہ کو چاہیے اک عمر اثر ہونے تک
 کون جیتا ہے ترے بیدار ہونے تک

ہم نے مانا کہ تم غافل رہے لیکن 
ہم خاک ہو گئے تم کو خبر ہونے تک

آج روس نے یوکرائن پر حملہ کیا۔ساری دنیا چینخ اٹھی۔اس بچے کی آہ پر دیکھتے ہیں ، کتنوں کی چینخ نکلتی ہے۔ لوگوں کاکہنا ہے کہ یوکرائن اپنے مکافات عمل کا شکار ہے۔مصنف کا کہنا ہے کہ بچہ شام کا ہو یا فلسطین کا ،یوکرائن کا ہو کہ کشمیر کا۔بچہ تو بچہ ہے اور وہ معصوم ہے ۔گنہگاروں کی سزا بچوں کو کیوں دی جائے۔آج مذہب سے آگے بڑھ کر انسانیت کے ساتھ کھڑے ہونے کی ضرورت ہے۔ابھی ابھی راقم السطورکو ایک طالبہ مٹھائی دینے کے لیے آئی کہ اس کا بھائی یوکرائن سے براہ ہنگری نکلنے میں کامیاب ہو گیا ۔اپنوں کی خوشی اپنے ہی محسوس کرتے ہیں لہٰذا اپنوں کے غم کو بھی اپنوں ہی نے محسوس کرنا ہے۔کب تک امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو آس کی نگاہ سے دیکھتے رہیں گے۔افسوس اس بات کا ہے کہ اس چمچہ گیری میں بہت سے اسلامی ممالک آگے ہیں ۔یاد رکھیں گے کہ یہ بات نوشتہ دیوار پر عیاں ہو چکی ہے کہ امریکہ ، کسی کا نہیں ۔

جس پہ تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے

یوکرائن کو جس پر سب سے زیادہ بھروسہ تھا یعنی امریکہ وہ سب سے پہلے اس کا ساتھ چھوڑ کر نکل گیا۔امریکہ کے چاپلوسوں کے لیے اس میں عبرت ہے۔ *ان فی ذلک لعـــــــبرة لاولــــــی الاابصـــــــــــار۔*
آج ہمارے نوجوان فحش ویڈیو دیکھنے میں مصروف ہیں۔خواتین ، ڈرامے دیکھنے میں مصروف ہیں۔بوڑھے تفاخر حاصل کرنے میں مصروف ہیں۔بچے لہو و لعب میں مصروف ہیں۔بے حسی تو پیدا ہونی ہی تھی۔کاش کہ مصنف کی تحریر ان کے لیے بانگ درا کا کام دیتی۔ضرورت اس بات کی ہے کہ اپنا محاسبہ کیا جائے۔حتی الامکان ، دم توڑتی انسانیت کو سہارا دیا جائے۔دامے قدمے سخنے ان کی مدد کی جائے۔فرقہ واریت اور تعصب کی دیواروں کو پھلانگ کر بلا تفریق مذہب و ملت ،انسانیت کی خدمت کی جائے۔بقول شخصی:
یوں تو ہر شام امیدوں میں گزر جاتی ہے
 آج کچھ بات ہے جو شام پہ رونا آیا
مجھ پہ ہی ختم ہوا سلسلہ نوحہ گری
 اس قدر گردش ایام پہ رونا آیا

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے