مجلس صرف مسلم ووٹوں کے بھروسے سیاسی میدان میں زیادہ دیر نہیں ٹک سکتی
از:✍️ ذوالقرنین احمد
مسلمانوں کے اندر حقیقی زمینی سطح کی قیادت کا فقدان ہے۔ قائد صرف ایک کمیونٹی کا نہیں ہونا چاہیے علاقے شہر کی تمام کمیونٹی میں اسکی اپنی ایک الگ پہچان دبدبہ ہونا چاہیے عوام کے حقوق کیلئے زمین پر کام کرنے والے قائدین ہی حقیقت میں قائد کہلانے کے لائق ہے۔ چاہے وہ کسی بھی کمیونٹی سے تعلق رکھتے ہو عوام کا اعتماد حاصل کرنا ضروری ہے۔ مسلمانوں کے اندر ایسی قیادت کا فقدان ہے جو مسلم کے ساتھ ساتھ غیر مسلموں کو بھی اپنا ووٹر بناسکے۔
کوئی بھی پارٹی ایک جمہوری ملک میں صرف ایک کمیونٹی کے ووٹوں کے بھروسے سیاسی میدان میں نہیں ٹک سکتی ہے، کانگریس جو ستر سالوں تک اقتدار پر قابض رہی وہ مسلمانوں کے ووٹوں کے سہارے رہی ہیں۔ بی جے پی نے دھوکے بازی سے اقتدار حاصل کیا ہے، جس میں میڈیا اور الیکشن کمیشن کا بھرپور استعمال کیا گیا۔ ہندو ووٹوں کو متحد کرنے کیلئے فسادات کروائے گئے، مسلمانوں کے خلاف میڈیا نے ملک کی فضا میں نفرت کا زہر پھیلایا۔ لیکن بی جے پی نفرت اور صرف ایک مخصوص کمیونٹی کے افراد کے ووٹوں کے بھروسے زیادہ دیر اقتدار پر قابض نہیں رہ سکی گی۔ جس کا زوال اب شروع ہوچکا ہے۔
ملک کے تمام سیکٹر بربادی کی طرف بڑھ رہی ہے۔ اور اسکے ساتھ عوام کا غصہ بھی شدت اختیار کر رہا ہے۔ کسانوں مخالف قانون کے خلاف ملک کے کسان پوری قوت کے ساتھ حکومت کے خلاف سڑکوں پر احتجاج کر رہے ہیں۔ جن کا کہنا ہے کہ حکومت کو کسانوں کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہونا پڑے گا۔ اس بات سے سمجھ میں آتا ہے کہ صرف ایک مخصوص کمیونٹی کے افراد کے بل پر یا جذباتی تقریر کرکے دوسرے کمیونٹی کے دلوں میں نفرت کا ماحول پیدا کرکے اقتدار کو حاصل نہیں کیا جاسکتا ہے۔ بلکہ اسکی وجہ سے صرف ملک کی مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والی عوام میں دوریاں پیدا ہوگی۔ غلط فہمیاں پیدا ہوگی، اور اسکے نتائج یہ ہوگے کہ پھر سے فرقہ پرست حکومت کو ایک مخصوص کمیونٹی کے ووٹوں کو متحد کرنے میں کامیابی حاصل ہوگی، جس میں سیکولر ووٹوں کی اہمیت ختم ہوجائے گی اور سیکولر پارٹیاں آپس میں مختلف پارٹیوں سے ایک دوسرے کے خلاف انتخابات لڑ کر اپنی موت آپ مر جائے گی۔
مجلس اتحاد المسلمین کے صدر جناب اسدالدین اویسی کو چاہے کہ وہ سیاسی شعور کا مظاہرہ کریں۔ سو سیٹوں پر انتخابات لڑنا اتر پردیش کے مسلمانوں کے حق میں بہتر نہیں ہوگا چاہے وہ سو میں 25 سے 30 سیٹوں پر جیت حاصل بھی کرلیں لیکن ملک میں جو نفرت دیگر عوام میں میڈیا کے ذریعے پھیلائی جائیں گی اسکے نتائج آئیندہ مستقبل میں تمام ملک میں کسی بھی ریاست کے انتخابات میں نقصاندہ ثابت ہوگے۔ بیرسٹر اسد الدین اویسی کو چاہے کہ وہ تمام سیکولر سیاسی پارٹیوں سے حصہ داری کی بات کرتے ہوئے متحد ہوکر انتخابات لڑنے کیلئے تیار کریں، جو اتر پردیش کی علاقائی پارٹیاں ہے چاہے وہ چھوٹی چھوٹی پارٹیاں کیوں نا ہو ان کو ساتھ لے کر انتخابات لڑیں پھر آپ اتر پردیش میں کینگ میکر کا کردار ادا کرسکتے ہیں۔
موجودہ حالات میں ہندوستان میں مضبوط اپوزیشن کیلئے ایک نئے سیکولر سیاسی محاذ کی تشکیل بے حد ضروری ہے اور پھر وہاں حصہ داری کی بات کی جائے کانگریس نے ستر سالوں سے دھوکہ دیا ہے۔لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ صرف مسلم ووٹوں کو حاصل کرکے اقتدار حاصل ہوجائے گا۔ آج کی نوجوان نسل غیر شعوری طور پر جذباتی بیانات پر مجلس کا دامن تھام رہی ہے۔ ایک بات یہ بھی ہےکہ مسلمانوں کے اندر حقیقی زمینی سطح کی قیادت کا فقدان ہے۔ قائد صرف ایک کمیونٹی کا نہیں ہونا چاہیے علاقے شہر کی تمام کمیونٹی میں اسکی اپنی ایک الگ پہچان دبدبہ ہونا چاہیے عوام کے حقوق کیلئے زمین پر کام کرنے والے قائدین ہی حقیقت میں قائد کہلانے کے لائق ہے۔ چاہے وہ کسی بھی کمیونٹی سے تعلق رکھتے ہو عوام کا اعتماد حاصل کرنا ضروری ہے۔ مسلمانوں کے اندر ایسی قیادت کا فقدان ہے جو مسلم کے ساتھ ساتھ غیر مسلموں کو بھی اپنا ووٹر بناسکے۔ غیر مسلم علاقوں سے بھی انتخابات لڑ سکے۔ جیت حاصل ہو یا نا ہو لیکن غیر مسلم علاقوں سے بھی مسلم قائدین کو انتخابات لڑنا چاہیے تاکہ دونوں طرف سے سیاسی توازن بنا رہا اور ہم اپوزیشن کا کردار ادا کرسکے جس سے مسلمانوں کے ووٹوں کی اہمیت کا اندازہ دیگر سیکولر پارٹیوں کو ہوگا۔ تب جاکر یہ لوگ ایک نئے سیکولر سیاسی محاذ کی تشکیل کیلئے تیار ہوسکتے ہیں۔ جس کے بعد ملک میں مسلمانوں کی سیاسی بے وزنی کا فیصد کم ہوسکتا ہے۔
1 تبصرے
معاملہ مسلم ووٹوںکا نہیں ھے بلکہ ووٹوں کو بے اثر کنے کا ھے۔
جواب دیںحذف کریںbebaakweekly.blogspot.com