خانقاہ رحمانی مونگیر کا جہد مسلسل اور امارت شرعیہ کا ارتقا
از قلم :فضل رحمٰں رحمانی (صحافی)
9971224394
fazlerahmani7@gmail.com
شریعت اسلامیہ میں نظم و انتظام اور اتحاد و اتفاق کے ساتھ زندگی گزارنے کی خصوصی تلقین کی گئی ہے۔تنظیم و اتحاد اور طاقت و قوت کا اصل سرچشمہ اسلام کی بتائی ہوئی جماعتی زندگی میں پوشیدہ ہے۔ اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جماعتی زندگی کا کوئی تصور امیر کے بغیر ممکن نہیں۔جس کے ذریعہ اسلام کے تمام اجتماعی احکام و قوانین جاری و نافذ ہوتے رہے۔
غیر اسلامی ممالک میں شریعت کی رو سے مسلمانوں پر واجب ہے کہ وہ اپنے میں سے کسی صالح اور دین دار شخص کو اپنا امیر شریعت (شرعی سردار) منتخب کر یں اوراس کے تحت حتی الامکان تمام شرعی امور کا اجراء و نفاذ عمل میں لائیں اور ان کو امیر کی اطاعت کا جو حکم دیا گیا ہے اسے پورا کریں۔ قرآن مجید میں فرمایا گیا ’’یٰاَیُّہَاَ الَّذینَ آمَنْوا اَطِیعُوا اللّٰہَ وَاَطِیعُوا الرَّسْولَ وَ اُولِی الاَمرِ مِنکُم۔''اے ایمان والو!اللہ، اس کے رسول اور اس امیر کی اطاعت کرو(یعنی حکم مانو) جو تم مسلمانوں میں سے ہو۔
اجتماعی زندگی ایک امیر کے ماتحت گذرے ،اس کے لیے علماء بہار بالخصوص مولانا ابوالمحاسن محمد سجادؒ ابتدا ہی سے کوشاں رہے۔چنانچہ سو برس قبل انہوں نے ریاست بہار و اڑیسہ کے مسلمانوں کی ایک شرعی تنظیم امارت شرعیہ قائم فرمائی۔ بلاشبہ امارت شرعیہ اپنے امیرشریعت کے ماتحت مسلمانوں کو منظم و متحد رکھنے اور نظام شرعی کے قیام تحفظ کے لیے مسلسل کوشش کررہی ہے۔
امارت شرعیہ کا قیام اور امیر شریعت کا انتخاب:
1339ھ میں مفکر ملت حضرت مولانا ابوالمحاسن محمد سجاد نے اس فریضہ دینی کی طرف علماء کو متوجہ کیا، انہیں اجتماعی نظام کے قیام کی دعوت دی اور حضرت مولانا ابوالکلام آزادؒ، حضرت مولانا شاہ بدرالدین صاحب قدس سرہٗ سجادہ نشیں خانقاہ مجیبیہ پھلواری شریف پٹنہ اور قطب دوراں حضرت مولانا محمد علی مونگیری رحمۃ اللہ علیہ سجادہ نشیں خانقاہ رحمانی مونگیر کی تائید و حمایت سے 1921ء میں امارت شرعیہ کا قیام عمل میں آیا۔
حضرت مولانا محمد علی مونگیریؒ نے پہلے امیر کے انتخاب میں جس فراست ایمانی اور بے لوث جذبہ و ایثار کی شاندار اور مخلصانہ مثال پیش کی اس سلسلہ کو سلسلہ رحمانیہ کے تمام بزرگان دین نے جاری رکھا اور اپنے اپنے رنگ اور انداز میں اس کی منفرد مثال پیش کی۔
حضرت مولانا محمد علی مونگیریؒ امارت شرعیہ کے قیام کی تحریک میں روز اول سے حضرت مولانا ابوالمحاسن محمد سجادؒ کے مکمل شریک و معاون رہے۔ سنہ 1921ء میں امارت شرعیہ کے باضابطہ قیام کے لیے مولانا محمد سجاد صاحبؒ نے مولانا مونگیریؒ سمیت متعدد علما کے نام خطوط لکھے تو مولانا مونگیریؒ نے پوری گرم جوشی سے اس کا استقبال فرمایا۔
اس وقت بحیثیت امیر صرف دو بزرگان دین مولانا مونگیریؒ اور مولانا شاہ بدرالدین پھلوارویؒ کا نام سرفہرست تھا۔ اتفاق یہ کہ امیر کے لیے مولانا مونگیریؒ نے مولانا پھلوارویؒکے نام کی اور مولانا پھلوارویؒ نے مولانا مونگیریؒ کے نام کی تائید فرمائی۔مولانا پھلوارویؒ نے فرمایا ’’محکمہ شرعیہ کے امیر کے لیے جو پانچ صفات بتائی گئی ہیں، اس صوبہ بہار میں ان صفات سے موصوف اس وقت جناب مولانا شاہ محمد علی صاحب رحمانی کے سوا دوسرے کو نہیں پاتا اس لیے میری رائے ہے کہ اس منصب پر وہی مقرر کئے جائیں‘‘۔(امارت شرعیہ دینی جدوجہد کا روشن باب صفحہ 75۔76)
تاہم مولانا مونگیریؒ نے اپنے بعض اعذار کی بنیاد پر مولانا پھلوارویؒ کو مخاطب کر کے واضح طور پر کہا کہ میں آپ سے بڑا ہوں۔ ہر حال میں میری یہ خواہش ہے کہ آپ ہی اس منصب کو قبول فرمائیں۔
آخر کار بالاتفاق مولانا پھلوارویؒ پہلے امیر منتخب ہوئے، انتخابِ امیر کے بعد صوبہ بہار کے کچھ حلقوں میں جب اختلافات نے سر اُبھارا تو مولانا مونگیریؒ نے پوری قوت اور خلوص کے ساتھ امیر شریعت اول کی تائید کی اور صوبہ بہار کے علماء و عوام اور اپنے معتقدین، منتسبین اور محبین کو امارت سے تعاون کرنے کی خصوصی تلقین کی، اس خط سے دلوں کو تقویت ہوئی، دماغوں نے روشنی پائی اور امارت شرعیہ کو غیر معمولی تقویت پہنچی اور اِس ارشادِ گرامی نے صوبہ بہار کے مسلمانوں کو غلط راہ پر لگنے سے بچا لیا۔(ملخصاً از: امارت شرعیہ دینی جد وجہد کا روشن باب ص:79۔ وہ جو بیچتے تھے دوائے دل صفحہ 166۔167)
اس سے صاف پتہ چلتا ہے کہ حضرت مولانا مونگیری علیہ الرحمہ کا پاک اور خاص مزاج یہ تھا کہ وہ ہر اجتماعی کام میں ضرور شریک ہوتے، اس کی پوری حوصلہ افزائی فرماتے مگر براہ راست کوئی خاص عہدہ اور منصب قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔جیسا کہ خود انہوں نے ندوۃ العلما قائم کیا اور بہت مشکل سے نظامت قبول فرمائی مگر اس سے بھی بارہا مستعفی ہوتے رہے۔یہ ان کے اخلاص اور للٰہیت کی بہت بڑی دلیل ہے۔
سوا تین سال ہی امارت شرعیہ کے قیام کو گزرے تھے کہ امیر شریعت حضرت سید شاہ بدرالدین قادری قدس سرہٗ اپنے مالک حقیقی سے جا ملے۔ان کے وصال کے بعد ہی حضرت مولانا سجادؒ نائب امیر شریعت نے بروقت بیان جاری کیا کہ حضرت امیر شریعت اولؒ کا وصال بڑا صبر آزما حادثہ ہے لیکن مسلمانوں کو مطمئن رہنا چاہیے کہ جن مقاصد کے پیش نظر امارت شرعیہ قائم ہوئی ہے برابر قائم رہے گی۔
8۔9 ربیع الاول 1343ھ کو جمعیۃ علما بہار کے ارکانِ منتظمہ، امارت شرعیہ کے ارکان شوریٰ اور ریاست کے دیگر معزز علما کو امیر شریعت ثانی کے انتخاب کے لیے طلب کیا گیا۔ حضرت مولانا محمد علی مونگیریؒ قدس سرہٗ کو جلسہ کا صدر مقرر کیا گیا لیکن وہ اپنی علالت کی وجہ سے تشریف نہ لا سکے اور آپؒ کے صاحبزادہ حضرت مولانا سید شاہ لطف اللہ صاحبؒ نے جلسہ کی صدارت فرمائی اور حضرت قطب عالم مولانا سید محمد علی مونگیریؒ کا تحریری خطبہ پڑھ کر سنایا۔امارت شرعیہ کی شرعی ضرورت و اہمیت اس کے حقوق و فرائض اور اس سلسلہ کے مختلف گوشوں پر کتاب و سنت اور فقہ پر مبنی یہ بے مثال اور منفرد خطبہ آج بھی علما اور ارباب حل و عقد کے لیے ایک علمی و دینی دستاویز کی حیثیت رکھتا ہے۔
یہ کہنا ہرگز غلط نہ ہوگا کہ خانقاہ رحمانی مونگیر کے سجادہ نشیں قطب دوراں حضرت مولانا محمد علی مونگیریؒ نے اپنی فراست ایمانی اور للٰہی استعداد کی بنیاد پر امارت شرعیہ کو دو عظیم المرتبت امرا ء شریعت دیئے۔
امیر شریعت ثانی کے دور امارت کی مدت 23برس 2ماہ 20دن رہی۔
امیر شریعت ثانی کے انتقال کے بعد امیر شریعت ثالث کے انتخاب کے لیے 13/14 رجب 1366ھ مطابق 4/5 جون 1947ء کو ڈھاکہ کے ضلع چمپارن میں عام اجلاس طلب کیا گیا۔ انتظامات مکمل ہو چکے تھے۔اسی دوران حکومت بہار کی جانب سے ان تاریخوں میں پوری ریاست میں دفعہ 144 نافذ کر دیا گیا۔ مجبوراً اجلاس کی تاریخ ملتوی کرنی پڑی۔پھر اجلاس عام کے لیے 6/7 شعبان 66ھ مطابق 26/27 جون 1947ء کی تاریخوں کا اعلان کیا گیا۔اس تاریخ میں حضرت مولانا سید حسین احمد صاحب مدنیؒ صدر جمعیت علماء ہند کو اپنی تعلیمی مصروفیات کے باعث اجلاس میں شرکت سے معزوری ہوئی اور حضرت مولانا نے اپنی جگہ حضرت مولانا سید شاہ منت اللہ صاحب رحمانی سجادہ نشیں خانقاہ رحمانی مونگیر کو اجلاس کا صدر مقرر فرمایا لیکن اجلاس کے انعقاد سے قبل ایک سڑک حادثہ میں حضرت مولاناؒ سخت مجروح ہوئے اور شرکت سے معذور رہے۔
یہ وہ زمانہ تھا جب امارت شرعیہ کے بانی مولانا سید ابوالمحاسن محمد سجادؒ کی نگاہ جوہر شناس کی مولانا منت اللہ رحمانی علیہ الرحمہ پر خاص عنایت تھی اور ان کی خاص تربیت نے آپؒکی صلاحیت کو دو آتشہ کر دیا تھا۔ آپ کی قائدانہ صلاحت پر بانی امارت شرعیہ کو اس قدر وثوق واعتماد تھا کہ جب 1938ء میں بہار کی کانگریسی وزارت نے ''زرعی انکم ٹیکس'' لگایا اور مسلم اوقاف کو بھی اس سے مستثنیٰ نہیں کیا، تو مولانا سجاد صاحبؒ نے اس کی شدت سے مخالفت کی اور بہار اسمبلی میں مولانا منت اللہ رحمانیؒ نے اس موضوع پر نہایت مدلل اور مبسوط خطاب فرمایا۔
سلسلہ رحمانی کے بزرگان دین کی خدمات، کارگزاری اور حصولیابیوں کے بے شمار ایسے واقعات ہیں ،جنہیں مضمون میں قلمبند کرنا سمندر سے پانی نچوڑنے کے مترادف ہے۔ تاہم اتنا تو واضح ہے کہ اس خانوادہ کے بزرگان دین نے ملت کی خدمت اور امت کے جیالوں کے درد کو محسوس کرنے اور اس کے مرہم کا نظم کرنے کے لیے کبھی کسی عہدہ کی ضرورت محسوس نہیں کی۔
حتی کہ امیر شریعت ثالث مولانا شاہ قمر الدین صاحب قدس اللہ سرہٗ کی وفات کے بعد ریاست بہار کے علماء اور ارباب حل و عقد نے آپ کو چوتھا امیر منتخب کیا اور وقت نے بتایا کہ آپؒ اپنے اس حسن انتخاب میں اللہ کی طرف سے منصور تھے۔ حضرت مولانا سجاد صاحبؒ کی خصوصی تربیت اور خود اپنی تعمیری فکر، ملت کے درد و چُبھن کے احساس، قائدانہ صلاحیت اور امارت کے کاموں سے پہلے سے واقفیت کی وجہ سے امارت کے پلیٹ فارم سے آپ نے جو زریں خدمات انجام دی ہیں اس کی طویل فہرست ہے جسے مختلف کتابوں اور پرچوں میں پڑھا جا سکتا ہے۔
حضرت مولانا منت اللہ رحمانیؒ کی وفات کے بعد امارت شرعیہ کے ذمہ داروں نے مولانا عبدالرحمٰنؒ کو امارت شرعیہ کا پانچواں امیر مقرر کیا۔ ان کے انتخاب میں خود حضرت مولانا ولی رحمانیؒ شریک رہے اور ان کے نام کی تجویز پیش کی۔ 1997ء میں مولانا عبدالرحمٰنؒ کا انتقال ہو گیا۔ان کے انتقال کے بعد جب امارت شرعیہ کے چھٹے امیر شریعت کے انتخاب کی بات آئی۔ اس وقت امارت شرعیہ کے ذمہ داران دو حصوں میں منقسم ہو گئے۔ ایک حصہ حضرت مولانا سید نظام الدین صاحبؒ کو امیر شریعت بنانا چاہتا تھا تو دوسرا حصہ حضرت مولانا ولی صاحب رحمانیؒکو امیر شریعت بنانے پر مصر تھا۔دونوں میں سے کوئی حصہ اپنے فیصلے سے دستبردار ہونے کے لیے تیار نہ تھا۔صورت حال انتشار کا رخ لے چکی تھی تاہم حالات کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے حضرت مولانا ولی صاحب رحمانیؒ نے اپنی فراستِ ایمانی سے فوراً امیر شریعت سے اپنی دستبرداری کا اعلان کیا اور حضرت مولانا سید نظام الدین صاحبؒ کا نام چھٹے امیر شریعت کی حیثیت سے پیش کیا اور اپنے حامیوں سے انہیں خوش دلی سے قبول کرنے کی اپیل کی۔
اس موقع پر مولانا مرحوم نے کہا کہ میرے لیے یہ سعادت کی بات ہے کہ پانچویں امیر شریعت کے متفقہ انتخاب کا ذریعہ میں بنا تھا اور اب بھی میں ضروری سمجھتا ہوں کہ چھٹے امیر شریعت کو بھی ہم لوگ متفقہ طور پر منتخب کر لیں۔ اس لیے میں مولانا سید نظام الدین صاحبؒ کا اسم گرامی امیر شریعت کے لیے پیش کرتا ہوں۔ آپ سب اس تجویز کی تائید کریں گے۔ (حیات ولی صفحہ 150۔151)
ایسے موقع پر اتنا بڑا ایثار، ایسا اخلاص اور نفس کی ایسی قربانی دور دور تک نظر نہیں آتی۔
حضرت مولانا ولی رحمانیؒ نے نائب امیر شریعت کی حیثیت سے 10برس 7 ماہ خدمات انجام دیں۔15اکتوبر 2015 سے 28 نومبر 2015 تک چھٹے امیر شریعت کے انتقال کے بعد سے امیر شریعت کے انتخاب تک مثل امیر شریعت امارت شرعیہ کی خدمات انجام دیتے رہے۔ اس سے قبل 34؍ برسوں تک وہ امیر شریعت رابعؒ کے دست بازو بن کر امارت کے کاموں کو آگے بڑھانے میں لگے رہے تاہم بیچ کی مصلحتوں، ذاتی قربانیوں اور امت کے بے لوث خدمت کے جذبہ سے سرشار اس مرد مجاہد کو باضابطہ امیر شریعت کی حیثیت سے خدمات انجام دینے کے لیے محض 5برس 4ماہ اور 6دن ملے۔لیکن اس مختصر مدت میں بھی حضرتؒ نے امارت شرعیہ کے استحکام کے لیے متعدد اقدام اور کار ذریں انجام دیں۔ تنظیم امارت کو مضبوط کرنے کے لیے ہر ضلع میں صدر، سکریٹری اور فعال کمیٹی کا انتخاب عمل میں آیا۔ بڑی تعداد میں مبلغین کی بحالی عمل میں آئی۔ان کاموں کے لیے حضرتؒ نے پیرانہ سالی میں بھی متعدد اضلاع کے اسفار کئے۔
جھارکھنڈ میں امارت شرعیہ کے کاموں کو وسعت دینے کے لیے انتقال سے ایک ہفتہ قبل پانچ روز قیام کیا تھا اور مخلتف سطح پر کام کو آگے بڑھانے کے منصوبوں کو آخری شکل دی تھی۔اس سلسلہ کا آخری پڑاؤ صوبہ اڈیشہ تھا۔ رمضان کے بعد اس کی ترتیب بنی ہوئی تھی لیکن موت نے اس کا موقع نہیں دیا۔ دارالقضاء کے کاموں کو وسعت بخشتے ہوئے 68؍ دارالقضاء قائم کیے جو اس وقت پوری مضبوطی کے ساتھ اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں۔
تعلیم کے میدان میں امارت پبلک اسکول کھولے گئے، امارت انٹرنیشنل اسکول کی بنیاد رانچی میں ڈالی گئی۔ اردو کو داخلی سطح پر مضبوط اور سرکاری سطح پر حقوق کی یافت کے لیے اردو کارواں کا قیام عمل میں آیا۔ جس نے حضرتؒ کی توجہ کی بنا پر محض 2؍ ماہ کے اندر ہی اپنی ایک شناخت بنا لی۔
ملی معاملات میں بھی ساتویں امیر شریعت کے دور میں مثالی کام ہوا۔ 15؍ اپریل 2018 کو گاندھی میدان میں ''دین بچاؤ دیشن بچاؤ تحریک'' کانفرنس کا انعقاد عمل میں آیا۔ یہ تاریخ کا پہلا واقعہ تھا کہ پٹنہ کے گاندھی میدان کو مسلمانوں سے بھر دیا گیا تھا۔ اس بھیڑ کو دیکھ کر سیاست دانوں اور ملت کے بدخواہوں کی نیندیں اڑ گئی تھیں۔ کچھ سیاستدانوں نے تو اس کامیابی پر طنزاً مبارکباد دیتے ہوئے یہاں تک کہا تھا کہ اب ملک بالخصوص بہار کی سیاسی باگ ڈور بھی آپ کے ہاتھوں میں ہوگی۔ حضرتؒ نے دلت مسلم اتحاد کے لیے بھی زمینی سطح پر کام کیا اور ان کے رہنماؤں کے ساتھ متعدد سود مند اور ثمر آور میٹنگز کیں۔
سی اے اے ، این آر سی اور این پی آر کا مرحلہ سامنے آنے سے قبل ہی آپ نے اپنے کشف اور دور رس نگاہوں سے آنے والے طوفان کا اندازہ لگا لیا تھا اور کاغذات وغیرہ کی تیاری کی مہم امارت شرعیہ نے شروع کر دی تھی۔پھر جب سی اے اے کا معاملہ آیا تو حضرت کی مضبوط قیادت میں پورے ملک میں تحریک چلائی گئی اور بہار، اڈیشہ اور جھارکھنڈ میں قائم تقریباً تمام احتجاج و مظاہرہ کی سرپرستی امارت شرعیہ نے کی۔ تین طلاق کے مسئلہ پر پورے ملک میں جو تحریک چلائی گئی اس میں امارت شرعیہ کی فعال اور مضبوط شراکت رہی۔ حضرت امیر شریعت سابعؒ کی قیادت و نگرانی میں خواتین کے اتنے کامیاب جلوس نکلے کہ جس کی مثال بھارت کی تاریخ میں نہیں ملتی۔واضح رہے کہ تین طلاق کی حمایت میں لا کمیشن کی جانب سے پیش کردہ نا معلوم 10؍ہزار دستخط کے جواب میں مسلم پرسنل لا بورڈ نے شریعت کی حفاظت کی خاطر 4؍کروڑ سے زائد دستخط پیش کئے۔یہ دنیا کا سب سے بڑا غیر سرکاری ریفرینڈم ہے۔ انہیں کے دور مسعود میں امارت شرعیہ ٹرسٹ کا قیام عمل میں آیا۔ اخیر میں یہ بھی حضرت امیر شریعت سابعؒ کی کھلی کرامت ہی کہئے کہ انتقال سے کئی روز قبل انھوں نے نوجوان عالم دین اور دارالعلوم وقف دیوبند کے استاذ حدیث جناب مولانا شمشاد رحمانی کو نائب امیر شریعت مقرر کیا جو الحمد للہ بحسن و خوبی اپنے قیمتی خدمات انجام دے رہے ہیں۔اب اِسے کرامت ہی کہیے کہ کہ امیر شریعت کی نامزدگی دستورِ امارت کی رو سے کلی طور پر امیر شریعت کی ہوتی ہے لیکن آپ نے جب نائب امیر کی نامزدگی کی تو امارت کے متعدد ذمہ داروں سے اِس پر دستخط بھی ثبت کروا دیے۔ تاکہ دنیا جان لے کہ ولی کامل کا اجتماعی نظام پر کتنا بھروسہ تھا۔
غرض یہ ہے کہ اس مختصر تحریر میں حضرت کی مختصر مدت کار کی تفصیل پیش کرنا بھی ممکن نہیں ہے۔ اس سلسلہ میں امارت شرعیہ کے نائب ناظم مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی مدظلہ العالی کی ’’ساتویں امیر شریعت کا دور امارت‘‘ عنوان سے ایک تفصیلی تحریر مختلف اخبارات و رسائل میں شائع ہوئی ہے جس کا مطالعہ کیا جانا چاہیے۔
اب جبکہ 3؍ اپریل سنہ 2021 کو حضرت امیر شریعت سابع اس دار فانی سے رخصت ہو گئے تو اب پھر ایک بار تمام مسلمانوں کے لیے عموماً اور بہار، اڈیشہ اور جھارکھنڈ کے مسلمانوں کے لیے خصوصاً آٹھویں امیر شریعت کے انتخاب کا ایک بڑا چیلنج ہے۔ یوں تو بہار میں بہت سے علما اور بزرگان دین موجود ہیں اور الحمدللہ اپنی جگہ اپنے کاموں میں لگے ہوئے ہیں تاہم ضرورت اس بات کی ہے کہ بہار، اڈیشہ اور جھارکھنڈ کے مسلمان انتہائی سمجھداری، فراست اور دور اندیشی کے ساتھ اس منصب جلیلہ کے لیے فردِ فرید کا انتخاب کریں۔
ظاہر ہے افراد تو بہت ہیں لیکن جس خاندان کے ایثار و قربانی اور دینی، ملی، سماجی، سیاسی اور معاشرتی خدمات کی ایک طویل فہرست ہے۔ اور بلا شبہ اس خاندان کی جو نسبت رہی ہے وہ دوسرے لوگوں کو میسر نہیں ہے۔
اسی خانوادۂ رحمانی کے چشم و چراغ فضیلہ الشیخ حضرت مولانا سید احمد ولی فیصل رحمانی جو اپنے خدمات کے لحاظ سے انتہائی قلیل مدت میں چرچے میں آئے۔حضرت مولانا سید محمد ولی صاحب رحمانی علیہ الرحمہ نے اپنی فکری و روحانی بصیرت کے پیش نظر خانقاہ کے سجادہ نشیں کے طور پر فضیلۃ الشیخ محترم مولانا احمد ولی فیصل رحمانی صاحب حفظہٗ اللہ کو اپنے بعد سجادہ نشینی کے لیے نامزد کیا جو کہ الحمد للہ حضرت امیر شریعت سابع کی وفات کے بعد خانقاہ کے سجادہ نشینی اور جامعہ کی سرپرستی فرمارہے ہیں۔ محترم جناب مولانا احمد ولی فیصل رحمانی صاحب نہ صرف دنیاوی علوم میں اپنا منفرد مقام رکھتے ہیں، بلکہ دینی علوم اور زہد وتقویٰ میں بھی اپنی مثال آپ ہیں۔اخلاق و کردار کے اعتبار سے نمایاں، تصنع اور بناوٹ سے دور، تواضع و انکساری، حلم اور برد باری کے پہاڑ۔ حقیقت یہ ہے کہ دنیاوی لحاظ سے آپ نے ترقی کے جو منازل طے کیے ہیں، اْس کے بارے میں ہر پڑھنے اور بڑھنے والا انسان تمنا اور خواہش کرتا ہے۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اعلیٰ درجہ کی کامیابی بھی آپ کے تواضع اور انکساری کو کسی طرح متزلزل نہیں کرسکی۔
سجادہ نشینی کے منصب پر فائز ہونے کے بعد جب لوگوں نے آپ سے مصافحہ کیا تو محسوس ہوا کہ قطب عالم حضرت مولانا سید محمد علی مونگیریؒ کا زہد و تقویٰ اور امیر شریعت حضرت مولانا سید محمد منت اللہ رحمانی علیہ الرحمہ کی فہم و فراست اور قیادت و سیادت اور مفکر اسلام حضرت مولانا سید محمد ولی صاحب رحمانی علیہ الرحمہؒ کی بے باک وبے لوث قیادت، اللہ کریم نے ہمیں مولانا احمد ولی فیصل رحمانی کی شکل میں عطا کر دیا ہے۔
شروع کے پندرہ سالوں میں آپ کی تربیت امیر شریعت رابع حضرت مولانا منت اللہ رحمانی نور اللہ مرقدہ کے زیر سایہ ہوئی جس کا غیر معمولی اثر آپ کی شخصیت اور آپ کے علم سے ظاہر ہوتا ہے۔
آپ جدید تعلیم کے حصول کے لیے 1997 میں امریکہ تشریف لے گئے جہاں آپ کیلیفورنیا اسٹیٹ یونیورسٹی میں کالج ٹاپر رہے۔ ٹاپر رہنے کی وجہ سے فراغت کے بعد آپ کو اسی یونیورسٹی میں لیکچرر شپ کے عہدہ سے نوازا گیا۔ یہاں پر آپ نے تعلیم کے ایک نئے شعبے، 3 تین نئے ہائر لیول کورس کی تشکیل کی اور اس کو کامیابی کے ساتھ پڑھایا۔
چوں کہ آپ کی ابتدائی دینی تعلیم و تربیت براہِ راست حضرت امیر شریعت رابع مولانا منت اللہ رحمانیؒ کی نگرانی میں ہوئی تھی اس لیے علوم دینیہ کی نشر و اشاعت کی جانب آپ شروع سے ہی قلبی و ذہنی رجحان رکھتے تھے۔ 1997 سے آپ مستقل ریاستہائے متحدہ امریکہ کی مختلف مسجدوں میں درس و تدریس کی خدمات فراہم کر رہے ہیں، اور امریکہ کی کئی مساجد میں انفارمیشن ٹکنا لوجی خدمات کے قیام میں بھی آپ نے اہم کردار ادا کیا ہے۔
امریکہ کی ریاست کیلیفورنیا میں آپ نے"نیو ڈائمنشن" نامی اسلامی اسکول کے قیام میں اہم کردار ادا کیا، اْس اسکول کی ابتدا سے بارہویں جماعت تک کے جامع اسلامی و عربی نصاب کی تیاری میں آپ کا راست دخل بھی ہے آپ ہی نے اْس کے اسلامی اور عربی نصاب کو تیار کیا ہے۔ اْس کے علاوہ گذشتہ 6 برسوں سے آپ بذاتِ خود بہتر طریقے سے اْس کی صدارت اور سرپرستی کا فریضہ انجام دے رہے ہیں۔
امیر شریعت رابع مولانا منت اللہ رحمانی علیہ الرحمہؒ نے مدارس کے موجودہ نصاب میں ترمیم و اصلاح اور اْس نصاب کو بہتر بنانے کے لیے اپنے وقت کے جید علماء کی آرا کے مطابق ایک عہدنامہ تیار کیا تھا، حضرت مولانا محمد ولی رحمانی صاحبؒ نے محسوس کیا کہ اْن کے بڑے صاحبزادے مولانا احمد ولی فیصل رحمانی جو دینی اور دنیوی علوم کے حسین سنگم ہیں۔ وہ اِس کام کے لیے بہتر انتخاب ہوسکتے ہیں۔ لہٰذا مفکر اسلامؒ نے دینی علوم میں اپنی جانشینی اور بالخصوص اس ریزیولیشن کو بہتر طریقے سے نافذ کرنے کے لیے اپنے بڑے صاحبزادے مولانا احمد ولی فیصل رحمانی صاحب کو منتخب کیا۔
سنہ 2005 سے جناب مولانا احمد ولی فیصل رحمانی صاحب اپنے چھوٹے بھائی جناب حامد ولی فہد رحمانی کی مکمل شراکت کے ساتھ تمام تعلیمی اور انتظامی امور میں اپنے والد بزرگوار رحمۃ اللہ علیہ کا ہاتھ بٹاتے رہے ہیں۔ 2009 کے اواخر میں جامعہ رحمانی میں حفظ کے بچوں میں عربی کی استعداد کو بڑھانے کے لیے مولانا احمد ولی فیصل رحمانی صاحب نے حضرت مولانا منت اللہ رحمانی صاحبؒ کے عہد اور ارادے کو سامنے رکھتے ہوئے ایک نیا پروگرام شروع کیا جو طلبہ اور اساتذہ میں بے پناہ مقبول رہا اور بچوں کی صلاحیت چند ماہ کے اندر ابتدائی عربی سمجھنے اور بولنے کی ہونے لگی۔ عربی کے اس پروگرام کی خاص بات یہ تھی کہ اس میں نحو اور صرف کے ساتھ ایک نئے نصاب کی تعمیر کی گئی جس میں عربی کو سمجھنے، پڑھنے، بولنے، لکھنے اور سننے کی استطاعت اور مہارت پر خصوصی توجہ دی گئی اور مکمل تیار شدہ نصاب کے ساتھ اس کی تنفیذ کی گئی جس کا خاطر خواہ نتیجہ برآمد ہوا۔حفظ کے بچوں کے ساتھ عربی کے اس بے پناہ کامیاب تجربے کو دیکھتے ہوئے حضرت امیر شریعت رحمۃ اللہ علیہ نے خواہش ظاہر کی کہ اس کام کو آگے بڑھایا جائے۔ اسی خواہش کے پیش نظر مولانا احمد ولی فیصل رحمانی نے جامعہ رحمانی کا نیا شعبہ ’’ارالحکمت‘‘ قائم کیا۔جو اپنی خدمات اور حصولیابیوں کے لحاظ سے منفرد ہے۔
مولانا احمد ولی فیصل رحمانی صاحب کی ابتدائی تعلیم و تربیت امیر شریعت رابع مولانا منت اللہ رحمانی علیہ الرحمہ اور قاضی شریعت مولانا شعیب احمد رحمانی صاحبؒ اور جامعہ رحمانی کے دیگر جید اساتذہ کے زیر سایہ ہوئی، بعد میں یہ سلسلہ مفکر اسلام مولانا محمد ولی صاحب رحمانی کے زیر سایہ پروان چڑھتا رہا۔ والد محترمؒ کے زیر سایہ عربی کی مختلف فنون پر عبور حاصل کرنے اور عربی زبان و ادب میں لیاقت پیدا کرنے کے بعد جب حضرت نے محسوس کیا کہ مولانا احمد ولی فیصل رحمانی دینی علوم میں ایک خاص مقام تک پہنچ چکے ہیں تو دینی وعربی علوم میں مزید گیرائی و گہرائی حاصل کرنے لیے حضرت علیہ الرحمہ کے حکم سے 2010-2011 میں فضیلۃ الشیخ جناب مولانا احمد ولی فیصل رحمانی نے عربی زبان و ادب اور و دیگر دینی علوم میں مہارت حاصل کرنے کے لیے ملک مصر کا رْخ کیا اور وہاں طویل مدت تک مختلف ماہر اساتذہ کی سرپرستی میں رہ کر عربی زبان و ادب اور دیگر دینی علوم میں مہارت حاصل کی۔
حضرت مولانا احمد ولی فیصل رحمانی صاحب کی کوششوں سے جامعہ رحمانی مونگیر کا معادلہ جامعۃ الازہر سے طے پایا، اس معادلہ کے تحت ہر تعلیمی سال میں جامعہ رحمانی سے متعدد طلبہ براہِ راست جامعۃ الازہر الشریف میں داخلہ کے مجاز ہوں گے۔ اور وہاں مختلف کورسیز میں داخلہ حاصل کر سکیں گے۔
والدؒ کے حکم پر کارپوریٹ دنیا کو خیرباد کہنے کے بعد دنیا کی مختلف دینی و عصری یونیورسیٹیز میں درس و تدریس اور انتظامی امور کو بہتر طریقے سے سمجھنے کے لیے آپ نے یونیورسٹی آگ کیلفورنیا میں میں اہم خدمات انجام دیں۔ ساتھ ہی آپ یونیورسٹی آف کیلیفورنیا میں اْس ٹیم کے بھی حصہ رہے جو کیمپس کے اکیڈمک اور آپریشنل نظام کو بہتر طریقے سے چلانے کی ذمہ دار تھی۔جس کے نظام کو چلانے کے لیے اس وقت سات ہزار کروڑ روپے کا بجٹ مختص کیا گیا تھا۔
اب جبکہ اس وقت انتہائی اہم اور ملت کے نقطہ نظر سے ہم سبھوں پر نہایت ہی حساس ذمہ داری آ چکی ہے کہ ہمارے سامنے امارت شرعیہ کا ایک ایسا امیر منتخب ہو کر سامنے آئے جو امارت کے مال کا سچا اور پکا محافظ ہو، جس کے اندر صحیح اور بروقت فیصلہ کی لیاقت و صلاحیت بدرجہ اتم موجود ہو۔ ایسے وقت میں جب ملک میں اقلیتوں کو حقیر نگاہ سے دیکھا جا رہا ہے اور اس کے خلاف منظم سازش کی جا رہی ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم پوری سنجیدگی، فراست اور صبر و تحمل کے ساتھ آپس کے تمام اختلافات اور ادھر ادھر کی باتوں سے گریز کرتے ہوئے حضرت مولانا احمد ولی فیصل رحمانی کی شکل میں ایک ایسے امیر کا انتخاب کریں جو دینی شرعی علوم کے ساتھ ساتھ علوم عصریہ اور جدید تکنیک سے مکمل واقفیت رکھتا ہو۔ جس کے اندر مال کے صحیح استعمال اور اربوں کا حساب منٹوں میں کرنے کی لیاقت ہو جس نے کروڑوں اربوں کی لاگت والے ادارے کی ذمہ داری بحسن و خوبی پوری ایمانداری کے ساتھ نبھائی ہو۔جس کے باپ دادا نے اس عہدہ پر رہتے ہوئے کبھی وہاں کہ مال کا استعمال ایک پیسے کی چائے کے لیے بھی نہیں کیا۔ غرض یہ کہ جس عالی وقار شخصیت نے خدمت دین کے لیے اپنے عیش و آرام، راحت و سکون کی زندگی اور کروڑوں کی ملازمت و ملکیت کو ترک کی اور برسوں قبل وہاں کے تمام کاموں سے دستبردار ہو کر محض دین کی خدمت، اللہ کی رضا اور اپنے باپ دادا کے خون و جگر سے سینچے ہوئے پودے کو پروان چڑھانے کے لیے یہاں کی گرم ریت میں پاؤں پاؤں چلنے کا فیصلہ کیا۔ ملت و سماج کے لیے ان کی یہ قربانیاں سراہنے کے لائق ہیں۔ وہ اس وقت جرأت و عزیمت سے بھر پور ،نئی توانائیوں کے ساتھ ملت اسلامیہ کے مسائل کو دیکھنے ،باطل کے خلاف زبان وقلم کی طاقت سے لیس، حکمت و دانائی کی بنیادی پالیسیوں سے مربوط تازہ دم ذہن کے ساتھ میدان عمل میں اتر چکے ہیں، ضرورت ہے کہ ان پر بھروسہ کرتے ہوئے اور ملت کے مفاد میں ان کی ہمہ جہت صلاحیتوں سے بھر پور فائدہ اٹھا یا جائے۔دعا ہے کہ اللہ تعالی ان کو نظر بد سے بچائے اور سدا سلامت رکھے اور انہیں ملت کی ناخدائی کے لیے قبول فرمائے۔امین یارب العالمین۔
0 تبصرے
bebaakweekly.blogspot.com