لاک ڈاون میں ملک کا تعلیمی نظام درہم برہم (خصوصی مضمون :ناظم الدین فاروقی) ‏


        ( طلباء تعلیم حاصل کرتے ہوئے ۔فائل فوٹو) 

لاک ڈاون میں ملک کا تعلیمی نظام درہم برہم  
(خصوصی مضمون :ناظم الدین فاروقی) 
                              
 "بظاہر ہر بڑے چھوٹے تعلیمی اداروں اسکولس ‘ کالجس ‘ یونیورسٹیوں سے اپنے طلبا کے لئے آن لائن ویڈیو لکچرس کا اہتمام کیا جارہا ہے۔جس سے زیادہ تر متوسط اور اعلیٰ متوسط گھرانے کے طلبا ہی استفادہ حاصل کررہے ہیں ۔ اس بات کا قوی امکان ہے کہ اسکول میں طلبا کے جمع ہونے سے کرونا وائرس کا انفکشن تیزی سے طلبا و ٹیچرس میں پھیل سکتا ہے ۔ کئی اولیا ٔ طلبا نے یہ طئے کرلیا ہے کہ اس تعلیمی سال میں بچوں کو اسکول نہیں بھیجیں گے۔ والدین کسی بھی قسم کا جوکھم لینا نہیں چا رہے ہیں ۔ جب ڈاکٹرس و میڈیکل اسٹاف میں باوجود تمام احتیاطی تدابیر کے پھیل سکتا ہے تو پھر طلبا و ٹیچنگ اسٹاف میں بھی پھیلاو کوئی نا ممکن نہیں ہے ۔"

           (ٹیچر طلباء کو پڑھاتے ہوئے ۔فائل فوٹو)


           7جون (بیباک@ نیوز اپڈیٹ /بذریعہ ای میل) لاک ڈاون کی وجہہ سے ملک کی معیشت کی طرح تعلیمی  نظام بھی درہم برہم ہوچکا ہے ۔ ہائی ٹک تعلیمی نظام کے لئے ہمارا ملک متحمل نہیں ہے۔ بظاہر ہر بڑے چھوٹے تعلیمی اداروں اسکولس ‘ کالجس ‘ یونیورسٹیوں سے اپنے طلبا کے لئے آن لائن ویڈیو لکچرس کا اہتمام کیا جارہا ہے۔جس سے زیادہ تر متوسط اور اعلیٰ متوسط گھرانے کے طلبا ہی استفادہ حاصل کررہے ہیں ۔ اس بات کا قوی امکان ہے کہ اسکول میں طلبا کے جمع ہونے سے کرونا وائرس کا انفکشن تیزی سے طلبا و ٹیچرس میں پھیل سکتا ہے ۔ کئی اولیا ٔ طلبا نے یہ طئے کرلیا ہے کہ اس تعلیمی سال میں بچوں کو اسکول نہیں بھیجیں گے۔ والدین کسی بھی قسم کا جوکھم لینا نہیں چا رہے ہیں ۔ جب ڈاکٹرس و میڈیکل اسٹاف میں باوجود تمام احتیاطی تدابیر کے پھیل سکتا ہے تو پھر طلبا و ٹیچنگ اسٹاف میں بھی پھیلاو کوئی نا ممکن نہیں ہے ۔
افسوس تو ملک کے قومی تعلیمی پالیسی سازوں پر ہے کہ کروڑوں بچو ں کے تعلیمی سال ضائع ہونے کےامکانات بڑھ گئے ہیں۔وہ ایسے وقت خاموش تماشائی بنے بیٹھے ہیں۔ ایسے وقت ملک کی کیا ایمرجنسی قومی تعلیمی پالیسی ہونی چاہئے۔ بی جے پی کے پالیسیوں ‘ منصوبہ بندیوں اور اختراعی اقدامات پر سرکار کو بڑا ہی فخر تھاجس کی حقیقت ملک کے عوام کے سامنے کھل کر آگئی ہے۔ شیریں گفتگو ‘ جملہ بازی ‘ ڈرامائی حرکتوں ‘سے قوم کے ایمرجنسی پیچیدہ مسائل اور چیالنجس کا کوئی حل  نہیں نکل سکتا۔ حکومت ہر سکٹر پر بری طرح ناکام ہوچکی ہے ۔ موجودہ سرکار صرف مسلمانوں کے خلاف نفرت و حقارت کی میڈیا مہیم میں کامیاب ہوئی ہے۔ RSS؍ بی جے پی کے دانشواران اور پالیسی ساز عقل و فہم سے عاری نظر آتے ہیں ۔ جس وقت اپنی ماہرانہ سیاسی تدابیر و حکمت ِعملی کا مظاہرہ کرنا چاہئے تھا وہ کہیں قرنطینہ میں خاموش پڑے نظر آتے ہیں ۔ بعض ریاستوں کے چیف منسٹروں کی دانش مندانہ پالیسی کی وجہہ سے حالات بے قابو ہونے سے بچ گئے ۔ ورنہ عالمی سطح پر ہندوستان کا مزید تماشہ ہوتا۔
آئن لائن کلاسیس کے لئے ابھی ملک پوری طرح سے تیار نہیں ہے۔ایک خاندان کے‘  ایک کالج میں دو اسکول میں بچے پڑھتے ہیں ۔ کئی موبائل فونس اور لیاب ٹاپس کے گھر میں مطالبات بڑھ گئے ہیں ۔ دکن کرانیکل کےمطابق تلنگانہ ریاست گھروں تک انٹرنیٹ کی فراہمی میں ملک میں سب سے پیچھے ہے۔ یہ کہنا مشکل ہےانٹرنیٹ کے نٹ ورک سے کب خاندان مربوط ہوں ہوسکیں گے اور کب اپنے بچوں کو اسمارٹ فون خرید کر دلا سکیں گے۔ خدشہ ہے کہ اس وقت تک  یہ تعلیمی سال ختم ہوجائے گا۔
یہ بات عیاں ہوچکی ہے کہ حکومت طلبا  و  اولیا طلبا ‘ اساتذہ ‘ ٹیچنگ اسٹاف ‘ کے (ہائی ٹک ) درس و تدریس کے مسائل سے ہرگز واقف نہیں ہے؟ یا جان بوجھ کر وزارتِ تعلیم عدم دلچسپی کا شکار ہے ۔ اسکول ‘ کالجس کے کشادگی کا وقت ‘ آپہنچا ہے ۔ حکومت کی کوئی پالیسی ابھی تک سامنے نہیں آئی ہے ۔ قوم کے لاکھوں ‘ کروڑوںمینگریٹ مزدوروں کے ساتھ جس طرح غیر دانشمندانہ و ظالمانہ سلوک کیا گیا تھا  کہیں اسی طرح ان طلبأکےساتھ بھی غیر ذمہ دارانہ سلوک تو نہیں کیا جائے گا ۔تعلیمی اداروں کی اپنی زیادتیاں بھی سامنے آرہی ہے ۔اسکول اور کالج انتظامیہ کو بھی ایک بہانہ مل گیا جو ٹیچرس آئن لائن طریقۂ تعلیم سے واقف نہیں ہیں ۔ انھیں ملازمت سے نکال دیا جارہا ہے ۔ ٹیچنگ کلاس طبقے میں  مایوسی پیدا ہوگئی۔ ٹیچرس کی بے روزگاری میں بڑے پیمانے پراچانک اضافہ ہوا ہے ۔ اچھے تجربہ کار ٹیچرس جو پوری محنت اور لگن سے درس و تدریس کے فرائض انجام دیتے ہیں ۔وہ لاک ڈاون کی وجہہ سے شدید مالی مشکلات کا شکار ہوچکے ہیں اور قرض و لوگوں کی امداد پر گزر بسر کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ حکومت کو چاہئے کہ وہ پرائیوٹ اسکولس اور کالجس کے ٹیچنگ اسٹاف کے لئے کوئی امدادی پیکیج متعارف کروائے ۔ ورنہ طلبا کا تعلیمی سال 20-21تباہ ہوجائے گا اور بچے ایک سال تعلیم میں پیچھے ہوجائیں گے ۔ تعلیم کی سست روئی کی وجہہ معیشت کا کئی ہزار کروڑ نقصان بھی ہوگا ۔ 
گھر پر بچے اسمارٹ فونس کے لئے آپس میں لڑ پڑتے ہیں ۔ پڑھائی کم لڑائیاں چھڑانے میں والدین کا وقت صرف ہو رہا ہے ۔بچےرات تمام  نٹ ‘ڈیجیٹل گیمس و سوشل میڈیا پر لگے رہتے ہیں اور دن میں بے وقت سونے کے عادی ہوچکے ہیں۔لاک ڈاون کے دوران تین ماہ سے آمدنی نہ ہونی کی وجہ سے متوسط اور BPLخاندان سخت پریشان ہیں ۔ اس کے8اہم عوامل ہیں جس کی وجہہ سے یہ ہائی ٹک تعلیمی نظام پوری طرح سے کامیاب نہیں ہوسکتا ہے ۔
1۔    غریب خاندانوں کے بچے اور طلبا اسمارٹ فونس خریدنے سے قاصر ہیں۔
2۔   انٹرنٹ کی فیس دینے کے قابل نہیں۔
3۔    والدین  اپنے دو تین بچوں کے لئے بیک وقت آن لائن مختلف کلاسیس منعقد ہونے پر توجہ دینے سے قاصر ہیں ۔         گھر پر ایک دو اسمارٹ فونس کے 
    لئے بچے آپس میں لڑتے رہتے ہیں ۔
4۔   اکثر شہری اور دیہی علاقوں میں آن لائن کلاس کے موقع پر بجلی کی سربراہی مسدود رہتی ہے ۔
5۔   ماں اپنے کاموں میں ہوتی ہے ۔ بچے یا تو کھیلتے رہتے ہیں یا کلاس کے وقت سوتے رہتے ہیں ۔ 
6۔  اچھے ٹیچرس و لکچررس میں اکثر ابھی بھی آن لائن کلاسیس کے لئے  ٹکنیکلی  ماہرTechnically Skilledنہیں ہے۔ 
7۔   آن لائن کلاسیس کی تعلیمی ادارے علیحدہ فیس بھی وصول کر رہے ہیں بعض گھرانے فیس ادا کرنے کے متحمل        نہیں ہے۔ 
8۔     اس کے علاوہ ہمارے 78% بچے گورنمنٹ اسکولس میں تعلیم حاصل کرتے ہیں ان 95%گھرانوں کے پاس بھی         اسمارٹ فون نہیں ہے ۔ 
اسرائیل میں کروناوائرس کی وجہہ سے 7ہزار اسکولی بچوں کو کورنٹائن کردیا گیا ہے ۔ اسکولوں کی کشادگی کہ بعد کس طرح سے طلبا کے درمیان سماجی فاصلہ Social Distancing کو برقرار رکھا جائے گا ۔ اکثر اسکولوں کی عمارتیں چھوٹی ہیں ۔ سماجی فاصلہ کے ساتھ کس طرح سے اسکول کی کلاس میں طلبا کو بیٹھایا جائے گا ۔ آٹو اور کاروں میں بچوں کے سفر پر فی الوقت پابندی عائد ہے ۔ اگر یہ پابندی نہیں اٹھائی گئی تو پھر طلبا کا حمل و نقل کس طرح ہوگا۔ٹیکسی اور آٹو ڈرائیورس روزانہ درجنوں مسافرین کو لے جانے  کا کام کرتے ہیں ‘ اگر کسی کو بھی انفکشن لگ جائے تو وائرس اور تیزی سےپھیل سکتا ہے ۔
کیرالا کی حکومت نےدرس و تدریس کے لئےسب سے اچھا اقدام کیا ہے جو ملک کے دوسرے ریاستوں کے لئے قابل تقلید ہے ۔کیرالا میں T.Vپر روزانہ کے کلاس لئے جارہے ہیں اور اسکول کے اوقات کار میں مضامین پڑھائے جارہے ہیں ۔ بغیر کسی خرچ کے مفت میں طلباT.V کے ذریعہ اپنی تعلیم جاری رکھے ہوئے ہیں ۔ T.Vچیانل آن لائن کلاس کے لئے انتہائی کامیاب ماڈل ثابت ہوا ہے ۔ ریاستی حکومتوں کو چاہئے کہ وہ یہ ماڈل اپنائے ۔ مرکزی حکومت کا کام  تھا کہ لاکھوں ‘ کروڑوں کے کرونا وائرس امدادی پیاکیج میں تعلیم کے لئے  بھی علیحدہ فنڈس مختص کرتے ۔ اور منسٹری آف ہیومن ریسورس کے تحت فوری آن لائن ٹیچرس لرننگ کراش کورسیس ملک کے طول و عرض میں منعقد کرتے ۔ RSSنے NEPکو اپنے قدامت پسندانہ  نظریات کے مطابق وضع کیا  اورLASMکو بہت اہم قرار دیتے ہوئے متعارف کروایا تھا۔ جو عصر حاضر کے تقاضوں کے مطابق یہ سب بے انتہا فرسودہ ہے۔لیکن یہ ضرری تھا کہ  کرونا وائرس لاک ڈاون کےموجودہ ایمرجنسی حالات میں تعلیمی نظام کو درپیش چیالنجس کے فوری ایک مختصر مدتی منصوبہ قوم کے سامنے لے آتے  ۔ پہلے ہی ملک کا تعلیمی معیار انتہائی پست ہے شمال ہند کے کئی  ریاستوں میں تعلیمی اداروں میں کرپشن و بد عنوانیوں کا عالم یہ ہے کہ کئی کئی ہفتے اساتذہ اسکولوں سے غائب رہتے ہیں اور ماہانہ حکومت سے تنخواہ برابر حاصل کرتے رہتے ہیں۔ اب جب کہ آن لائن کلاس کی شدید ضرورت لاحق ہوئی ہے تو ریاستی اور مرکزی حکومت خاموش تماشائی بنی بیٹھی ہیں ۔ سیاست دانوں ‘ حکومت کے انتظامیہ اور منصوبہ سازوں کا کام ہے کہ وہ اس جانب اولین توجہ دیں ۔ 
  کمزور منصوبہ سازی اور حکومت کی مجہول پالیسیوں کے اثرات اور اس کی تباہ کاریا ں فوری نظر نہیں آئیں گی۔چند سالوں بعد اس کے تکلیف دہ نتائج ہمارے سامنے دیکھنے کو ملیں گے ۔ پہلے ہی کروڑ ہا نوجوان بے روزگاری کا شکار ہیں پھر جب آئندہ دو تین سالوں میں یہ طلبا عملی میدان میں قدم رکھیں گے تو انھیں حکومت کس طرح روز گار فراہم کرسکے گی۔ کسی بھی قوم کی ترقی محض کسی ایک مخصوص فرقے کے خلاف نفرت و حقارت کا زہر گھولنے سے نہیں ہوسکتی اس کے لئے ایک جامع تعلیمی منصوبہ بندی کی ضرورت ہوتی ہے جو بی جے پی سرکار کے پاس بالکل ہی نہیں ہے ۔ 
(ختم شد ۔بشکریہ اعتماد  ، روزنامہ اردو ،  تاریخ اشاعت 07/60/2020،   مصنف کے مضامین ہر ہفتہ  ملک کے 20 سے زیادہ اخبارات میں شائع ہوتے رہتے ہیں۔)

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے